مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا قومی آزادی حاصل ہو اور فتح و نصرت کا دن آئے تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہم یہ سب خوشیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر مناتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ جب اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملنے کا دن آئے تو اتنی فرحت و مسرت کا اہتمام کیا جائے کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ خوشیاں و جشن منانے، چراغاں کرنے اور کھانے پکا کر تقسیم کرنے پر مال و دولت خرچ ہوتا ہے۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ان کاموں پر مال خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟ اس سے بہتر تھا کہ یہ رقم کسی محتاج، غریب، نادار کو دے دی جاتی، کوئی مسجد بنا دی جاتی، کسی مدرسے میں جمع کرا دی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس طرح کے کئی شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ کاموں پر خرچ کرنا اپنی جگہ بالکل درست، صحیح اور بجا ہے مگر باری تعالیٰ نے اس خیال کو بھی رد کر دیا کیوں کہ اس موقع پر اُمت کی اجتماعی خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو صدقات و خیرات سے منع تو نہیں کرتا، ہر کوئی غرباء و مساکین اور مستحقین کی خدمت اپنی استطاعت کے مطابق کرے مگر جب حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا موقع آئے تو یہ بہانہ بنا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو اپنا مال کسی اور نیک کام میں صرف کر دیں گے؛ بلکہ فرمایا : ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ انہیں چاہئے کہ وہ میرے حبیب کی خاطر خوشی منائیں۔ اور ’’هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ‘‘ کہہ کر واضح کر دیا کہ اِس خوشی پر خرچ کرنا کسی بھی اور مقصد کے لیے جمع کرنے سے افضل ہے۔ (7) آیتِ مذکورہ میں کثیر تاکیدات کا اِستعمال
قرآن حکیم میں کوئی حکم بیان کرنے کا یہ طریقہ بہت ہی کم اختیار کیا گیا ہے جو جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان پر مشتمل اس آیت میں اپنایا گیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں ہمیں واضح طور پر دس (10) تاکیدیں نظر آتی ہیں :
1۔ قُلْ : قُلْ کہہ کر بات شروع کرنا تاکید کی ایک قسم ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمہ تن گوش ہو جاؤ۔
2۔ بِفَضْلِ اللّهِ : ’’اللہ کے فضل کی وجہ سے۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل کی وجہ سے کیا؟ یہ استفہام پیدا کرنا بھی طریقۂ تاکید ہے کہ گویا ابھی اصل بات کو چھپایا جا رہا ہے۔
3۔ وَبِرَحْمَتِهِ : ’’اللہ کی رحمت کی وجہ سے۔‘‘ یہاں پھر استفہام پیدا کر دیا کہ رحمت کی وجہ سے کیا؟ یہ تیسری تاکید ہے۔
4۔ فضل اور رحمت کا اِجتماع : فضل کے بعد رحمت کا ذکر کرنا بھی تاکید ہے۔
5۔ فا کی حکمت : ذَلِكَ پر فا کا اضافہ کیا گیا ہے۔ فا عربی قواعد میں تاکید کے لیے آتی ہے۔
6۔ بِذَلِكَ : فضل اور رحمت کے ذکر کے بعد اِشارۂ بعید لانا بھی تاکید ہے۔
7۔ فَلْيَفْرَحُواْ : لِیَفْرَحُوْا پر پھر فا کا اضافہ کیا گیا جس سے تاکید پیدا ہو رہی ہے۔
8۔ فَلْيَفْرَحُواْ : یَفْرَحُوْا پر عزوجل بھی تاکید کے لیے ہے۔
9۔ هُوَ خَيْرٌ : ھُوَ تاکید کے لیے ہے۔
10۔ مِّمَّا يَجْمَعُونَ : یہ بھی تاکیدی کلام ہے۔
آیتِ مذکورہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے 10 تاکیدوں کے ساتھ جو حکم دیا وہ یہ ہے : فَلْيَفْرَحُواْ (خوشیاں مناؤ، جشن مناؤ) کیوں کہ فَبِذَلِكَ محبوب جو آ گیا ہے۔ اگر انسانی معاملہ ہو تو اتنی تاکیدوں سے مضمون بوجھل ہونے لگتا ہے مگر یہاں چونکہ محبوب کی بات ہونے والی ہے اور کلام بھی خدا کا ہے اس لیے اس میں مزید حسن اور نکھار پیدا ہو گیا ہے۔ دس (10) تاکیدوں کے بعد مضمون یہاں آ کر ختم کرنا۔ کہ یہ خوشیاں منانا جمع کرنے سے بہتر ہے۔ خوشی منانے کی اہمیت کو بدرجہ اتم واضح کر رہا ہے۔
تاکیدوں کے تکرار سے کلام میں کیا اثر پیدا ہوتا ہے؟ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ جس طرح کسی بچے کو اس کا باپ کوئی کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہے : ’’فلاں کام کیا کرو۔‘‘ اب سمجھ دار اولاد کے لیے باپ کا اتنا کہنا کافی ہوتا ہے لیکن باپ جب اس حکم کے ساتھ یہ بھی کہے : ’’بیٹا! میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ فلاں کام کرو۔‘‘ اب بیٹے کے کان کھڑے ہو جائیں گے کیوں کہ اب تاکید بڑھ گئی۔ وہ جان جائے گا کہ والد مجھے جس کام کے لیے حکم دے رہے ہیں وہ کوئی خاص کام ہوگا، لیکن اگر اس بچے کا والد اس سے بھی زیادہ سخت حکم دیتے ہوئے کہے : ’’بیٹا! سن لو میں تمہیں بطور خاص کہہ رہا ہوں کہ فلاں کام ضرور بالضرور کرو۔‘‘ اب باپ کے حکم میں چار تاکیدیں آگئیں اور اگر ان تاکیدوں کے ساتھ باپ اسے یہ بھی کہہ دے کہ بیٹا! کچھ اور کرو نہ کرو ایسا ضرور کرو ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا، تو اب بھلا حکم عدولی کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟
ترکِ فعل اور مخالفت تو پہلے بھی خلافِ ادب تھی مگر اتنی تاکیدات کے ساتھ حکم دینے کا تو یہی مطلب بنتا ہے کہ ’’بیٹا! میں فقط تم سے اس حکم کی تعمیل چاہتا ہوں۔‘‘ اب کوئی انتہائی بدبخت بیٹا ہی ہوگا جو اس حکم کی بجا آوری سے پہلو تہی کرے گا۔ یہ مثال صرف سمجھانے کے لیے تھی، وگرنہ باپ کا حکم کہاں اور رب ذوالجلال کا حکم کہاں! چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک کے مصداق وہ رب تو اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حقیقت بیان سے ہی کہلوا رہا ہے : محبوب! آپ میری طرف سے لوگوں کو حکم فرما دیں کہ ان پر جو اﷲ کا فضل اور رحمت اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر نبی آخر الزمان کے وجود اقدس کی صورت میں انہیں نصیب ہوئی ہے اس کے شکرانے پر خوب خوشیاں مناؤ، اور یہ بات میں تاکیدات کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے صرف ایک قانون برقرار رکھا : عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس تصور کے ساتھ شرعی حدود کے اندر رہ کر جتنی خوشیاں منائی جائیں جائز ہیں، لیکن ان کی کوئی حد نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے خوشیاں منانے کی کوئی حد مقرر نہیں کی تو کوئی انسان کیسے کر سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ اگر میری منشاء و حکم کے مطابق خوشی مناؤ گے تو اس پر کتنا اَجر و ثواب ملے گا، اس کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ تم جو کچھ بھی توشۂ آخرت کے طور پر تیار کررہے ہو اس سے تمہارا یہ خوشی منانا بہرحال میرے نزدیک زیادہ باعثِ اَجر و ثواب ہوگا۔ فرمایا :
هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO
’’یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
يونس، 10 : 58
یہ بات واضح فرما دی کہ اگر تم نے میرے اس فضل اور رحمت کی آمد پر خوشی نہ کی تو بے شک تم عبادت و ریاضت کے ڈھیر لگا دو تو مجھے اُن سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ مجھے تو اپنے محبوب کی آمد پر تمہارا خوش ہونا ان عبادتوں سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ بے شک ان عبادات کا حکم بھی میں نے ہی دیا ہے مگر اس نعمت کے شکرانے پر تم عبادات کے علاوہ خوشی بھی مناؤ۔ (8) هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کی تفسیر
آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانا جمع کرکے رکھنے سے بہتر ہے۔ سوال یہ کہ کیا چیز جمع ہو سکتی ہے؟ دو چیزیں ہی جمع کی جاسکتی ہیں :
1۔ دنیا کے حوالے سے جمع کرنا چاہیں تو مال و اَسباب اور دولت وغیرہ جمع کی جاسکتی ہے۔ اور
2۔ اگر آخرت کے حوالے سے جمع کرنا ہو تو اَعمالِ صالحہ مثلًا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ جمع ہو سکتے ہیں۔ مگر قرآن حکیم نے یہاں نہ مال و دولت کی تخصیص کی ہے اور نہ ہی اَعمالِ صالحہ اور تقویٰ وغیرہ کی نشان دہی کی ہے۔ بلکہ آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کلمہ مَا عام ہے جواپنے اندر عمومیت کا مفہوم لیے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو حاوی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں نکات ذہن نشین رکھ کر دیکھا جائے تو اس آیت سے مراد ہوگا : لوگو! تم اگر دنیا کے مال و دولت جمع کرتے ہو، جائیدادیں، کارخانے اور فیکٹریاں بناتے ہو یا سونے چاندی کے ڈھیروں کا ذخیرہ کرتے ہو غرضیکہ انواع و اقسام کی دولت خواہ نقد صورت میں ہو یا کسی جنس کی صورت میں، میرے حبیب کی آمد اور ولادت پر خوشی منانا تمہارے اس قدر مال و دولت جمع کرنے سے بہ ہر حال بہتر ہے۔ اور اگر آخرت کے حوالے سے سجود، رکوع، قیام و قعود کا ذخیرہ کر لو، نفلی عبادات جمع کر لو، فرائض کی بجا آوری سے اجر و ثواب کا ذخیرہ کرلو، غرضیکہ نیکی کے تصور سے جو چاہو کرتے پھرو لیکن اس نعمت پر شکرانے کے لیے جشن منانا اور اس پر اپنا مال و دولت خرچ کرنا، یہ تمہارے اَعمالِ صالحہ کے ذخیرے سے زیادہ گراں اور زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے اس نعمتِ عظمیٰ کی آمد پر خوشی نہ کی تو تم نے اَعمالِ صالحہ کی بھی قدر نہ کی۔ چونکہ سب اعمال تو تمہیں اسی کے سبب سے نصیب ہوئے؛ قرآن اسی کے سبب سے ملا، نماز، روزہ، حج وغیرہ اسی کے توسط سے عطا کیے گئے، ایمان و اسلام بھی اسی کے ذریعے سے ملے، دنیا و آخرت کی ہر نیکی اور عزت و مرتبہ بھی اسی کے سبب سے ملا، بلکہ نیکی، نیکی اِنتخابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی اور برائی، برائی اِجتنابِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرار پائی۔ اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ عطا کرنے والے رب العزت کی معرفت تمہیں اسی کے سبب سے ملی۔ پس اس ہستی کے عطا کیے جانے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کر کے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کا یہ عمل سب سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔