
عورتوں کا مسجد جانا کیسا؟؟
ابتدائی دور میں عورتوں کو مسجد میں آنے نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت تھی اسی لئے حدیث پاک میں جماعت کی صفوں میں مرد و عورت کی صف کے درمیان فضیلت اس طرح بیان فرمائی گئی ہے
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز با جماعت میں اجر کے اعتبار سے مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور بری صف آخری ہے (یعنی پہلی صف کی بنسبت آخری صف میں اجر اور فضیلت کم ہے )۔عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بری صف پہلی ہے (یعنی وہ صف جو مردوں کی صف سے متصل ہے کیونکہ اس میں نفس کے بہکاوے یا توجہ بننے کا اندیشہ ہو سکتا ہے )
سنن ترمذی ، رقم الحدیث 224
عمرہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے جو انہوں نے اب ایجاد کیا تو ان کو (مسجد آنے سے ) منع فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کیا تھا میں نے عمرہ سے پوچھا کیا ان کو منع کر دیا گیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا ہاں
(صحیح بخاری رقم الحدیث 869)
علامہ غلام رسول سعیدی (علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی 855ھ کے حوالے سے) لکھتے ہیں
اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتیں جو انہوں نے ہمارے زمانے میں ایجاد کر لیا ہے اور اپنی زیبائش اور نمائش میں غیر شرعی طریقے اور مذموم بدعات نکال لی ہیں تو یقینا اپنے موقف میں اور شدت اختیار فرماتیں (عمدۃ القاری جلد6 ص227 ) میں (علامہ غلام رسول سعیدی)کہتا ہوں اگر علامہ عینی ہمارے زمانہ کی فیشن زدہ عورتوں کو دیکھ لیتے تو حیران رہ جاتے اب اکثر عورتوں نے برقع پہننا چھوڑ دیا ہے ۔ سر کو دوپٹہ سے نہیں ڈھانپتیں تنگ اور چست لباس پہنتی ہیں بیوٹی پارلر میں جا کر جدید طریقوں سے میک اپ کرواتی ہیں مردوں کے ساتھ مخلوط اجتماعات میں شراکت کرتی ہیں میرتھن ریس دوڑ میں حصہ لیتی ہیں بسنت میں پتنگ اڑاتی ہیں ویلنٹائن ڈے مناتی ہیں اس قسم کی آزاد منش عورتوں کے مسجد میں جانے کا تو خیر کوئی امکان نہیں البتہ چن اللہ سے ڈرنے والی خواتین ضرور مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے یا رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنے جاتی ہیں جہاں ان کی نماز کے لئے باپردہ جگہ بنائی جاتی ہیں
سو جو خواتین پردہ کی حدود قیود سے مسجدوں میں جائیں تاکہ وہ درس قررآن و حدیث وعظ اور نصیحت سن سکیں تو میری رائے ہے کہ انکو منع نہیں کرنا چاہئے جبکہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں اس کی گنجائش بھی ہے (نعمۃ الباری جلد2 صفحہ 798
علامہ زین الدین بن شہاب الدین حنبلی متوفی 795ھ لکھتے ہیں مردوں کے ساتھ جماعت میں خواتین کے مسجد میں نماز پڑھنے کے مسئلہ میں فقہا کا اختلاف رہا ہے بعض فقہا نے اس کو ہر حال میں مکروہ کہا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی موقف ہے ۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہا نے کہا میں اس زمانہ میں عورتوں کے نکلنے کو مکروہ کہتا ہوں کیونکہ وہ فتنہ و آزمائش ہے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ ہے کہ وہ عیدین کے سوا گھروں سے نہ نکلیں بعض فقہا نے بوڑھی عورت کو نکلنے کی اجازت دی ہے اور جوان عورتوں کو منع کیا ہے یہ امام مالک رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی رضی اللہ عنہ امام یوسف رضی اللہ عنہ اور امام محمد رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور ہمارے اصحاب حنبلیہ کا بھی یہی قول ہے (فتح الباری لابن رجب جلد 5صفحہ 309 دار ابن الجوزیہ ریاض)
مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ علیہ غسل جمعہ کے متعلق ایک حدیث کی شرح میں مرقاۃ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرو(بخاری و مسلم)
اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ حکم اس وقت کے لئے تھا جب عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت تھی عہد فاروقی سے اس کی ممانعت کر دی گئی کیونکہ عورتوں میں فساد بہت آگیا ہے اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے اور علیحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں مسجدوں میں آکر کچھ دین کے احکام سن لیں گی عہد فاروقی میں عورتوں کو مطلقا گھر سے نکلنے کی ممانعت تھی
ایک دوسری حدیث کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں یہاں صرف مرد کا ذکر ہوا ہے کیونکہ نماز جمعہ صرف مرد پر فرض ہے عورتوں پر نہیں اور بعض احادیث میں عورتوں کا ذکر ہے وہاں عبارت یہ ہے من اتی الجمعہ من الرجال والنساء اس لئے جمعہ میں عورتوں کا آنا بھی مستحب ہے مگر اب زمانہ خراب ہے عورتیں مسجدوں میں نہ آئیں (مرقاۃ)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں سینماؤں بازاروں کھیل تماشوں اسکول کالجوں میں جائیں صرف مسجد نہ جائیں گھروں میں رہیں بلا ضرورت شرعیہ گھروں سے باہر نہ نکلیں اسی لئے فقیر کا یہ فتوی ہے کہ اب عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے سے نہ روکو۔ اگر ہم انہیں روکیں گے تو یہ وہابیوں مرزائیوں دیوبندیوں کی مساجد میں پہنچتی ہیں جیسا کہ تجربہ ہوا ان لوگوں نے عورتوں کےلئے بڑے بڑے انتظامات اپنی اپنی مسجدوں میں کئے ہوئے ہیں عورتوں کو گمراہ کرکے ان کے خاوندوں اور بچوں کو بہکاتے ہیں (مرات شرح مشکوۃ جلد دوم صفحہ 170،333)
مزید لکھتے ہیں اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے اور علیحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں مسجدوں میں آکر کچھ دین سیکھ لیں گی (مرقاۃ شرح مسکوۃ جلد دوم)
ہمارے فقہا کرام کا عمومی موقف تو یہی ہے کہ اخلاقی تنزل کی وجہ سے عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دی جائے لیکن اس کا مقصد تو یہ جب مسجد میں نماز کے لئے آنے سے ان خواتین کو روکنا شریعت کا منشا ہے تو پھر یہ پابندی ان کو عام حالات میں بھی اختیا ر کرنی چاہیے لیکن اب چند دین دار عورتوں کے علاوہ عام عورتیں تعلیم روزگار بازاروں سماجی تقریبات اور روز مرہ معاملات میں بلا روک ٹوک شرعی حجاب کے بغیر گھومتی پھرتی ہیں
'تو پھر صرف مسجد یا بالحصوص دینی مجالس سے کیوں روکا جائے جب کہ مسجد میں نماز کے لئے یا عورتوں کے لئے مخصوص تبلیغی اجتماعات میں آنے والی خواتین شرعی حجاب کے ساتھ آتی ہیں اور انہیں دینی مسائل سننے کا موقع بھی ملتا ہے
جس کی وجہ سے دینی ذوق رکھنے والی اہلسنت کی خواتین کیلئے جب اپنے مسلک کے مطابق اس طرح کے انتظامات نہیں ہوتے تو وہ ان مجالس میں جاتی ہیں اور علم کی کمی کی وجہ سے ان کے عقائد و نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں اس لئے میری(ـمفتی منیب الرحمان) نزدیک موجودہ دور میں مساجد میں نماز تراویح اور دروس کی مجلسوں میں شرعی حدود کی مکمل پاسداری کے ساتھ خواتین کی شرکت کا اہتمام اباحت و جواز کی حدود سے نکل کر ضرورت کے درجے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس لئے میں (مفتی منیب الرحمان) اس کی تائید کرتا ہوں اور علما اور مفتیان کرام کو اس ضرورت کا احساس دلاتا ہوں