top of page

٭٭٭٭٭جو تمہارا نہیں وہ ہمارا نہیں٭٭٭٭٭

وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی

اور اۓ محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی ہم نے پھینکی

یہ آیت کریمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نعت ہے اولا غور کرنا چاہئے کہ اس میں کس واقعہ کی طرف اشارہ ہے دوسرے اس میں نعت کس طرح ہے ۔ یہ واقعہ یہ ہوا کہ جنگ در جو 2ھ میں واقعہ ہوئی اس میں کفار مکہ بہت سازوسامان کے ساتھ مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے آئے اور اہل  مدینہ کے پاس سوائے اللہ کی مد اور رسول علیہ السلام کی برکت اور کچھ بھی نہ تھا کفار تقریبا ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ کفار کے پاس ہر طرح کے کھانے پینے کے سامان مگر مسلمانوں کے منہ میں دن بھر روزہ اور رات میں قرآن کی آیات قرآن کفار کے پاس تیر تلوار نیزے بھالے مسلمانون کے پاس خرمے کی لکڑیاں بدن پر کپڑے بھی پھٹے ہوئے اور پاؤں میں چھالے کفار کے لشکر میں گانے والوں کے گانے اور باجوں کے نغمے اور مسلمانوں کی طرف آیات قرآنی اور تکبیر کے کلے رات کے وقت کفار شراب میں مخمور مسلمان نشہ ذکر الہی اور شراب محبت میں چور غرض یہ کہ اُدھر شیطان کا لشکر اِدھر رحمان کا لشکر

مسلمانوں کی اس ظاھری حالت کو دیکھ کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سجدہ میں سر رکھ کر بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ یا خدا اس وقت روئے زمین پر تیری سچی عبادر کرنے والی صرف مسلمانوں کی بے سروسامان چھٹی سی جماعت ہے اگر آج تو نے ان کی امداد نہ فرمائی اور یہ جماعت شکست کھا کر ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تیرا سچا نام لیوا کوئی بھی نہ رہے گا اور اس قدر گریہ وزاری فرمائی کہ اس جگہ کی کنکریں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے آنسوؤں سے تر ہو گئیں پھر سجدے سے سر اٹھایا اور ایک مٹھی خاک کی لے کر لشکر کفار کی طرف پھینکی وہ اللہ جانے ایک مشت خاک تھی یا ابابیل کی کنکریں تھیں کہ تمام ہی کافروں کی آنکھوں میں پہنچ گئیں اور کافر آنکھیں ملتے ہوئے رہ گئے۔

بعد میں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی اس تھوڑی سی جماعت نے کافروں کے اس سازوسامان والے لشکر پر ایسی فتح پائی کہ جس کا آج تک ذکر چلا آرہا ہے بڑے بڑے سرداران قریش کفار اس جنگ میں مارے گئے اوہ بہت سے قید ہوئے

یہ تو واقعہ تھا جس کا اس آیت پاک میں ذکر ہوا اب آیت کیا فرمارہی ہے؟یہ فرما رہی ہے کہ اۓ محبوب علیہ السلام وہ واقعہ جبکہ آپ نے ایک مشت خاک کفار کی طرف پھینکی اور سب کی آنکھوں میں پہنچ گئی اے پیارے تم نے نہ پھینکی بلکہ تمہارے رب نے پھینکی تھی یعنی ہاتھ تو تمہارے تھے مگر کام ہمارا تھا۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک کام کو رب نے ایسا پسند فرمایا کہ فرمادیا تم نے یہ کام کیا ہی نہیں تھا بلکہ ہم نے کیا تھا اس سے دو فارئدے حاصل ہوئے ایک تو یہ کہ تصوف کا اعلی درجہ ہے فنافی اللہ جب بندہ فانی فی اللہ اور باقی ہو جاوے اور دیکھنے میں تو وہ اپنی شکل میں ہو مگر عشق الہی اس کی رگ رگ میں اس طرح سرایت کر جاوے کہ اس کے ہر کام کو رب کی طرف منسوب کیا جاوے جس طرح مولانا روم اشارہ فرماتے ہیں

گفتہ او گفتہ اللہ بود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

یعنی جب وہ کلام کرتا ہے تو زبان عبداللہ کی ہوتی ہے اور کلام اللہ کا ہوتا ہے

چوں رو باشد انا اللہ از درخت ۔۔۔۔۔۔۔۔کے روانہ بود کہ گوید نیک بخت

دیکھو حضرت موسی علیہ السلام جب کلام الہی سے مشرف ہونے کوہ طور پر جاتے تھے تو ایک درخت تو ایک درخت سے آواز آئی تھی

مِنَ الشَّجَرَۃِ اَن یّٰمُوسٰی اِنّی اَنَا اللہُ رَبُّ العٰلَمِینَ

کہ اے موسی میں ہوں پروردگار عالم تو کیا یہ درخت کی آواز تھی یا درخت کہہ رہا تھا کہ میں اللہ ہوں ہرگز نہیں بلکہ یہ رب کا کلام تھا درخت اس کا مظہر

اسی طرح ایک کوئلہ آگ میں رکھا گیا آگ نے ایسی تاثیر کی کوئلہ بھی آگ بن گیا اب جس چیز کو یہ انگارا چھو جاوے جلا دے اسی طرح ایک شخص کو جن نے چھو لیا ہے اب وہ جنون کی حالت میں جو بولتاہے کہ میرا یہ نام ہے میں فلاں جگہ رہتا ہوں اور مجھ میں یہ طاقت ہے کیا یہ اس آدمی کی بات ہے ؟ نہیں بلکہ زبان تو اس آدمی کی ہے ۔ جسم تو اس کوئلہ کا ہے مگر کلام اور کام اس کا ہے جس نے اس میں سرایت کی ہے

یہ تو مثال تھی اب سمجھو کہ اس درجہ میں قدم رکھ کر بعض عارفین انا اللہ یا سبحانی ما اعظم شانی وغیرہ وغیرہ بول جاتے ہیں یہ کلام ان کا نہیں ہوتا زبان ان کی ہے کلام کسی اور کا ہے یہ ہی فرق ہے فرعون اور حضرت منصور میں کہ فرعون نےکہا انا ربکم الاعلی میں تمہارا رب بڑا رب ہوں کافر ہوا ۔ کیونکہ وہ میں تھا اور پھر رب بنا مگر حضرت منصور نے جب انا الحق یعنی میں حق ہوں تب وہ اپنی انانیت فنا کر چکے تھے تو ہی تو میں فنا ہو گئے تھا

مگر لطف یہ ہے کہ یہاں تو خود منصور نے کہا کہ میں حق ہوں واجب القتل ہوئےلیکن یہ ضبط مصطفی ہے کہ خود اپنے پر اتنا قابو رکھتے ہین کہ ہر دم انا العبدی ہی فرماتے ہیں میں عبداللہ ہوں ہاں رب فرماتاہے کہ اے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام تم فنا فی اللہ کے اس درجے میں ہو کہ تمہارا کلام اور کام سب ہمارا ہوتا ہے حضرت موسی علیہ السلام نے تجلی خدا دیکھی تو بے ہوش ہوگئے مصطفی کریم علیہ الصلوہ والتسلیم کی شان کے قربان کہ تجلی ذات دیکھ کر بھی مسکرا رہے ہیں

موسی نہ ہوش رفت بہ یک پر تو صفات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو عین ذات مے نگری در تبسمی

رب تعالی نے صرف اسی آیت میں نہ فرمایا بلکہ ایک جگہ ارشاد ہوتاہے کہ اے پیارے جو تم سے بیعت کرتے ہیں وہ ہم سے بیعت کرتے ہیں اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے (سورۃ فتح)ایک جگہ ارشاد ہوتاہے کہ ہمارے نبی اپنی خواہش سے بولتے ہی نہیں ان کا کلام وحی الہی ہوتا ہے (سورہ نجم)

دوسرا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ جو شخص حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی کام کسی کلام یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چیز کی توہین کرے وہ کافر ہے کیونکہ یہ در پردہ رب کی توہین ہے ۔ اگر کوئی شخص صدہا سال تک عبادت کرتا رہے متقی پرہیز گار ہو مولوی ہو پیر ہو دنیا دار ہو مگر کبھی کسی موقعہ پر نعلین پاک مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام کی توہین کردے تو اس کی تمام عبادت ضبط ہو گئیں اور وہ مرتد و کافر ہوگیا (دیکھیں شفا شریف اور ردالمختار وغیرہ) بلکہ دیکھو قرآن مجید ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون

مولا تعالے اس بارگاہ کا ادب نصیب فرمادے آمین

وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین برحمتہ وھو ارحم الرٰحمین

ان اولوہابیۃ قوم لا یعقلون

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے 

یہ گھٹائیں اسے منظور بڑھانا تیراآآ

فیس بُک پر ہمارا پیج لائک کریں
 

کچھ لوگ فیس پر پر ہمارے سنی بھائیوں کو بہکا رہے ہیں ان سے بچنے کے لئے ہمارا پیج لائک کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  • s-facebook

اللہ پاک ہم سب کو ان نجدیوں کے فتنے سے محفوظ رکھے (امین)
 
یہ وہابی نجدی اللہ اور اس کے رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء امت کے گستاخ ہیں اور ان کا ناجی گروہ سے کوئی تعلق نہیں

bottom of page