٭٭٭ حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمہ ٭٭٭
حضرت عبد اﷲ شاہ غازی 98 ھ میں حضرت محمد نفس ذکیہ کے گھر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔آپ حسنی وحسینی سادات میں سے ہیں آپ کا شجرہنسب حسنی میں ابو محمد عبد اﷲ الاشتر بن سید محمد نفس ذکیہ بن سید محمد عبد اﷲ بن سیدنا امام حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم اورماں کی جانب حسینی ہے۔ حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نکاح حضرت امام حسن مثنیٰ سے ہوا تھا ۔آپ حضرت امام موسیٰ کاظم سے عمر میں تین سال بڑے اور اما م جعفر صادق سے عمر میں پندرہ سال چھوٹے تھے ،تلوار چلانے اور اونٹ سواری میں آپ کا ثانی نہیں تھا اس لئے آپ کو الاشتر یعنی اچھا اونٹ چلانے والا جو کہ آپ کے نام کاجز بن گیا ۔آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے والد کے زیر سایہ ہوئی آپ علم حدیث میں مہارت رکھتے تھے اس لیے آپ کا محدثین میں بھی شمار کیا گیا۔ آپ ’’میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں ‘‘کے خانوادے کے روشن چراغ تھے آپ میں علم کے جو ہر موجو د تھے آپ علم کی تابانیوں سے عرش تا فرش بقعہ نو ر تھے۔ آپ کا تابعی ہونا بھی ممکنات میں سے ہے آپ کے زمانے میں کئی صحابہ کرام روئے زمین پر موجود اپنے علم کے نور بکھیر رہے تھے ۔ آپ کی پیدائش کا زمانہ بنو امیہ کی حکومت کا آخری دور تھا بنو امیہ کی ٩٢ سالہ حکومت زوال پذیر تھی ٩٢ سالہ دور حکومت سادات پرظلم وجبراوربربریت کا سخت دور تھا اموی حکمراں اہل بیت اطہا ر کو اپنی حکمرانی کیلئے ہمیشہ خطرہ سمجھتے تھے ۔ ہزاروں سادات شہید کیے گئے ، ہزاروں جلا وطن، ہزاروں نے اپنے اعلیٰ نسب کو چھپا کر گم نامی کی زندگی گذاری الغرض بنو امیہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ١٣٢ ھ میں عبد اﷲ بن محمد سفاح پہلا عباسی حکمراں بنا بغداد عباسیوں کا دارالسلطنت بنا۔ عبد اﷲ بن محمد سفاح کے انتقال کے بعد اس کا بھائی ابو جعفر عبد اﷲ، المعروف ابو جعفر منصور مسند اقتدار پر بیٹھا منصور نے اپنی حکومت جمانے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ہیبت بٹھانے کیلئے وہ مظالم کیے جو تاریخ کے خونی اوراق میں کسی سے کم نہیں منصور نے خصوصیت کے ساتھ سادات پرجومظالم ڈھائے وہ سلاطین عباسیہ کی پیشانی کا بہت بڑا بدنما داغ ہیں ۔ ١٣٨ ھ میں حضرت عبداﷲ شاہ غازی کے والد حضرت محمد نفس ذکیہ نے نظامِ رسالت و خلافتِ راشدہ کی بحالی کیلئے تحریک کا آغازکیا ،جسے تاریخ میں علوی تحریک کے نام سے جانا جاتاہے حضرت محمد نفس ذکیہ تقویٰ و پرہیز گاری کے لحاظ سے نہایت ممتاز بزرگ شمار ہوتے تھے ۔ حجازمقد س وعراق میں ہزاروں عقیدت مند اِن کی آواز پر لبیک کیے ہوئے تھے حضرت امام مالک رحمۃ ُاﷲعلیہ نے آپ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا ۔ 14 رمضان المبارک 145 ھ میں مدینہ منورہ کے شمال میں جبل سلع کے قریب عباسی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے نفس ذکیہ بہت شجا ع فنِ حرب کے ماہر قوی و طاقتور تھے ، ایک بڑی فوج سے مقابلہ کیا حضرت محمد نفس ذکیہ نے اپنے بیٹے عبد اﷲ الاشتر کو سندھ اور بھائی حضرت سید ابراہیم کو بصرہ کی جانب روانہ کردیا تھا۔ بصرہ میں سید ابراہیم کے ہاتھ پر ہزاروں لوگوں نے بیعت کی۔ بصرہ میں قیام کے دوران سید ابراہیم نے بڑی قوت حاصل کرلی آپ بصرہ سے کوفہ منتقل ہوگئے ، کوفہ میں ایک لاکھ افراد آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے بڑے بڑے علماء وفقہا نے ان کا ساتھ دیا بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رحمۃ ُاﷲعلیہ نے بھی ان کی حمایت و مالی مدد کی جنگ میں بعض مجبو ریوں کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے جس کا امام اعظم کو آخری وقت تک افسوس رہا ۔حضرت سید ابراہیم کو بھی منصور کے مقابلے میں شکست ہوئی او رسید ابراہیم شہید کردیئے گئے منصور نے جنگ سے فارغ ہوکر ان لوگوں کی خبر لی جنہوں نے ان کے خلاف خروج میں کسی بھی طرح کا تعاون کیا تھا ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا ۔کئی افراد کوقتل اور کئی کو قید وبند کی سزائیں اور کئی کوکوڑے مارے جن میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بھی شامل تھے ۔بعد ازاں ابو جعفر منصور نے امام اعظم کو قید میں زہر دے کر شہید کروا دیا ۔حضرت عبد اﷲ شاہ غازی کوفہ سے ہوتے ہوئے سندھ میں ایک تاجرکی حیثیت سے پہنچ چکے تھے ۔اُس وقت سندھ میں گورنرعمربن حفص تھا جو سادات سے بڑی عقیدت رکھتا تھا ۔ اگرچہ آپ کے والد نے آپکو خلافت علوی کے نقیب کے طور پر سندھ بھیجا تھا مگر آپ نے اپنی زیادہ توجہ تبلیغ اسلام کی جانب مرکوزرکھی مگرایک دن موقع پاکر آپ کے ایک ساتھی نے گورنرسندھ عمر بن حفص کوسادات کی حکومت کے قیام میں مدد کی دعوت دی جسے گورنر نے فوراً قبول کرلیا ،کچھ دنوں بعد بغداد سے ایک تاجر بحری جہازکے ذریعے سندھ پہنچا جو اپنے ہمراہ گورنر کی بیوی کا خط گورنر کیلئے لایا تھا ۔جس میں اُس کی بیوی نے لکھا کہ سید محمد نفس ذکیہ اور اُن کے بھائی سید ابراہیم عباسیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہے گورنروہ خط حضرت عبد اﷲ شاہ الاشتر کے پاس لے کر گیا اور اُن سے ان کے والد اور چچا کی شہادت پر تعزیت وافسوس کا اظہا ر کیا خط وحالات سن کر آپ غمگین ہوئے تو اس موقع پر عمر بن حفص نے آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ رنجیدہ نہ ہوں میں آپ کو یہاں کے ایک ہندو راجہ کے پاس بھیج دیتا ہوجو اگرچہ اپنے ہندو نظریہ پر قائم ہے مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی آل کا بے حد احترام کرتا ہے ۔اور وہ آپ کوبڑے احترام سے رکھے گا اور وہ خو د مختار ہے ۔اس لیے حکمراں اُسے کسی بات پر مجبور نہیں کریں گے ، الغرض گورنرسندھ کی مدد سے ساحلی ریاست (ممکنہ طور پر ساکروندی کے قریب )جانے کا فیصلہ کیا راجہ نے آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت واحترام کے ساتھ پیش آیا اورآپ کے مشن میں شریک سفر ہوگیا ۔تقریبا ًچار سال آپ راجہ کے مہمان رہے راجا آپ کے حسن واخلا ق و کردار سے متاثر ہوکر آپ کانیاز مند ہوگیا اور اپنی بیٹی آپ کے عقد میں دے دی جس سے ایک بیٹا پیدا ہواجس کا نام محمد ابوالحسن رکھا ۔یہا ں تقریبا ًچار سوافراد مشرف بہ اسلام ہوئے ۔آپ نے اہل سندھ کے اندر دین متین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ انکے معاشی اور معاشرتی حقوق اور سماجی انصاف کیلئے بھی شعور اجاگر کیا ۔
151ہجری میں ابو جعفر منصور کومعلوم ہواکہ عبداﷲ شاہ الاشتر سندھ میں مقیم ہیں جس پر منصور کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی ۔وہ حضرت عبد اﷲ شاہ غازی کو سندھ میں عباسی حکومت کیلئے خطرہ محسوس کررہا تھا ، اُس نے گورنرعمر بن حفص سے جواب طلبی کی اور ُاسے گورنرسندھ سے معزول کرکے افریقہ کا گورنر بنا کر افریقہ بھیج دیا اور ہشام بن عمروتغلبی کوسندھ کا نیا گورنر بنا کر خصوصی ہدایات کیساتھ بھیجا کہ عبد اﷲ شاہ غازی ک وگرفتار کرواور راجہ کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ ہوتو راجہ کو قتل کردیا جائے مگر ہشام بن عمرو جو خود بھی سادات کا احترام کرتا اور اُن سے دلی عقیدت رکھتا تھا اور پھر عبداﷲ شاہ الاشتر کی سند ھ میں غیر معمولی شہرت ومقبولیت کی وجہ سے نئے گورنرہشام بن عمرو انہیں گرفتار کرنے میں ترد کاشکار رہا مختلف حیلوں اور بہانوں سے عبداﷲ شاہ غازی کی گرفتاری سے متعلق ابو جعفر منصور کو ٹالتا رہا انہی دنوں میں سندھ کے ایک اور علاقے میں بغاوت ہوئی جوکہ عبد اﷲ شاہ غازی کے قیام کے قریب کا علاقہ تھا گورنرہشام بن عمرو نے اپنے بھائی سفیع بن عمرکو اُس بغاوت کو کچلنے کیلئے بھیجا عبد اﷲ شاہ غازی بمعہ مریدوں کے سیروشکار پرنکلے ہوئے تھے سفیع بن عمرو لشکریوں کے ہمراہ اس علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا دور سے عبداﷲ شاہ غازی کی سواریوں سے اُٹھنے والی گرد سے اس کے دل میں خوف پیدا ہواکہ دشمن کا لشکر آرہا ہے ، سپاہیوں کو حکم دیا کہ لڑائی کیلئے تیار ہوجاؤ جب حضرت عبد اﷲ شاہ غازی قافلے کے قریب آئے تو لشکریوں نے آپ کو پہچان لیا اور سفیع کوبتایا کہ یہ تو حضرت عبد اﷲ شاہ غازی الاشتر ہے اہل بیت کے خاندان سے ہے سابقہ گورنر عمر بن حفص نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور موجودہ گورنرہشام بن عمرو بھی ان کے عقیدت مندوں میں سے ہے اور یہاں شکار کی غرض سے آتے رہتے ہیں مگر سفیع نے اپنے لوگوں کی باتوں پردھیان نہیں دیا اُس نے حضرت عبد اﷲ شاہ غازی سے گرفتاری دینے یا جنگ کیلئے پیغام دیا آپ جنگ کیلئے تیار نہ تھے سفیع جو اہل بیت کے شہزادوں کی تلواربازی کواچھی طرح جانتا تھا ، سفیع نے اپنے لشکر کے ساتھ آپ پرحملہ کردیا،آپ اپنے نوساتھیوں کے ہمراہ تھے دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے آپ نے بڑی جواں مردی کے ساتھ ایک بڑے لشکر کامقابلہ کیا، باوجو د اس کے کہ مقابل ایک فوجی لشکر تھا ،مگر آپ کے مختصر لشکر کے سامنے آنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا مقابل لشکر نے ایک ساتھ آپ پر حملہ کیا آپ زخمی ہوئے شاہی لشکر کے لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے کہ ایک ظالم نے پیچھے سے تلوار کاوار کرکے آپ کو شہید کردیا۔’’اناﷲواناالیہ راجعون ‘‘
قرب وجوار کے لوگوں کوجب آپ کی شہادت کے واقعہ کا علم ہوا تو بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے ادھر سفیع نے اپنے بھائی گورنر ہشام بن عمروکواس کی اطلاع دی گورنر کچھ بول نہیں سکھا کیونکہ یہ عباسی حکمراں ابو جعفر منصور کے حکم کی بجا آوری تھی اس نے اس کی اطلاع بغداد میں ابو جعفر منصور کودی ۔ادھر آپ کے مریدوں نے آپ کے جسد مبارک کو چھپا کر دور ایک اونچی پہاڑی پر لے گئے اور اسی پہاڑی پر آپ کو سپر دخاک کیا گیا ۔ یہ پہاڑی کراچی کے کلفٹن کی پہاڑی ہے اس وقت یہ ایک مچھیروں کی چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی کئی کئی میل کوئی آبادی نہیں تھی بحری آمد و رفت بھی اُس وقت صرف دیبل موجو دہ بن قاسم پورٹ پر ہوا کرتی تھی جو اس وقت بھی کلفٹن سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کا سر مبارک کو تن سے جد ا کرکے بغداد ابو جعفر منصور کے دربار میں بھیجا گیا۔ پھربغداد سے مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد ابو جعفر منصور کو یہ خدشہ تھا کہ لوگ آپ کے صاحبزادے محمد ابو الحسن کو آپ کا جا نشین نہ بنالیں جو آپ کے سسر راجہ صاحب کے پاس اپنی والدہ صاحبہ کے ہمراہ مقیم تھا ہشا م بن عمر و نے 151ھ میں ہی راجہ صاحب کی ریاست پر حملہ کردیا خونریز معرکہ آرائی میں راجہ کوقتل اور ریاست پر قبضہ کرلیا گیا آپ کی اہلیہ محترمہ اور بیٹے کوپہلے بغداد پھر مدینہ منورہ بھیجوادیا گیا ۔حضرت عبد اﷲ شاہ غازی کا مزار کئی سوسال تک جسے مریدوں نے درختوں کی لکڑیوں و پتوں سے بنا یا ہوا تھا ۔ مریدین آپ کی قبر کے قریب ہی رہتے کہ کہیں عباسی (سرکاری) اہلکا ر جسم اطہر کو قبر سے نکال کر بغداد نہ لے جائیں یا نامعلوم مقام پر منتقل نہ کردیں۔ مریدوں کو سب سے زیادہ دقت یہ پیش آتی کہ وہاں پینے کا میٹھا پانی میسر نہیں تھا سمندری زمین پر پہاڑی جہاں میٹھے پانی کا ہونا ناممکن تھا ۔ مریدوں کی دعا سے حضرت عبد اﷲ شاہ غازی کے صدقے پہاڑی کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوا جو آج بھی جاری وساری ہے ۔یہ عبد اﷲ شاہ غازی کی کرامت ہے۔
اہل بیت رسول آل ابراہیم واسماعیل علیہ السلام ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے سے عرب کے ریگستان میں زم زم کا چشمہ ابل آیا تھا جو آج بھی ہے یہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں، جو چاہیں رب سے منوالیں اور رب کی رضا پر راضی رہیں۔ چاہے کتنی بڑی آزمائش کیوں نہ آجائے ۔
آپ کا عرس مبارک ہر سال ماہ ذوالحجہ کی 20 ، 21 ، 22 تاریخ کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ آپ کی خدمات دینیہ کے پیش نظر اہل سندھ او ر دنیا بھر سے لو گ اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے آپ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر شاندار ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں ۔
تحریر:
ماہنامہ تحفظ