قیدیوں کے ساتھ سلوک
کفار مکہ جب اسیران جنگ بن کر مدینہ میںآئے توان کو دیکھنے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور لوگ ان کو دیکھ کر کچھ نہکچھ بولتے رہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سودہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا ان قیدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور یہ دیکھا کہ ان قیدیوں میںان کے ایک قریبی رشتہ دار ” سہیل ” بھی ہیں تو وہ بے ساختہ بول اٹھیں کہ ” اے سہیل! تم نے بھی عورتوں کی طرح بیڑیاں پہن لیں تم سے یہ نہ ہو سکا کہ بہادر مردوں کی طرحلڑتے ہوئے قتل ہو جاتے۔”(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۴۵)
ان قیدیوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہوسلم نے صحابہ میں تقسیم فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ ان قیدیوں کو آرام کے ساتھ رکھاجائے۔ چنانچہ دو دو، چار چار قیدی صحابہ کے گھروں میں رہنے لگے اور صحابہ نے ان لوگوںکے ساتھ یہ حسن سلوک کیا کہ ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب مقدور بہترین کھانا کھلاتےتھے اور خود کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ (ابن هشام ج ۲ ص ۶۴۶)
قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمکے چچا حضرت عباس کے بدن پر کرتا نہیں تھا لیکن وہ اتنے لمبے قد کے آدمی تھے کہ کسیکا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا عبداﷲ بن اُبی(منافقین کا سردار) چونکہ قدمیں ان کے برابر تھا اس لئے اس نے اپنا کرتا ان کو پہنا دیا۔ بخاری میں یہ روایت ہےکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن اُبی کے کفن کے لئے جو اپنا پیراہن شریفعطا فرمایا تھا وہ اسی احسان کا بدلہ تھا۔ (بخاری باب الکسوة للاساری ج۱ ص۴۲۲)
اسیرانِ جنگ کا انجام
ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰعلیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہکیا جائے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ اِن سب دشمنانِ اسلام کوقتل کر دینا چاہیے اور ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنی تلوار سےقتل کرے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگاپنے عزیز و اقارب ہی ہیں لہٰذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہکچھ رقم لے کر ان سب کو رہا کر دیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہےفدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ اﷲتعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب فرمائے۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہوسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور انقیدیوں سے چار چار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جو لوگ مفلسی کی وجہسے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیئے گئے۔ ان قیدیوں میں جو لوگلکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس لڑکوں کو لکھناسکھا دیں۔ (ابن هشام ج۲ ص۶۴۶)
حضرت عباس کا فدیہ
انصار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمسے یہ درخواست عرض کی کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عباس ہمارے بھانجےہیں لہٰذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ درخواستمنظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے جنہوں نے لشکرکفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس کے پاس بیس اوقیہسونا تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئےوہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ تھا۔ اس سونے کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نےمال غنیمت میں شامل فرما لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنا اور اپنے دونوںبھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو بن جحدم چارشخصوں کا فدیہ ادا کریں۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاںسے فدیہ ادا کروں ؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا جان !آپ کا وہ مال کہاں ہے ؟ جو آپ نے جنگ ِ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی ” ام الفضل” کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مارا جاؤں تو اس میں سے اتنا اتنامال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا کہ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپکو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ یقینا آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا علم میرےاور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے اپنا اور اپنےدونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کی پھر اس کے بعد حضرت عباساور حضرت عقیل اور حضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) (مدارجالنبوة ج۲ ص۹۷ و زُرقانی ج۱ ص۴۴۷)
حضرت زینب کا ہار
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰعلیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اورہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہرضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرتزینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰعلیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰعنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرتزینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضیاﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰعنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہاربھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنےگلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پرپڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پرایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ” اگر تم لوگوں کی مرضیہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو ” یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہتعالیٰ عنہم نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔(تاريخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابو العاص رہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اورحضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھےیہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھےکہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اوریہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اورحضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کیخوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تماممجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مالو اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کراور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہسے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کرمدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آ کر حضرت بی بیزینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(تاريخ طبری)
مقتولین بدر کا ماتم
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبرجب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سےکہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کرا دیا کہ خبردار کوئیشخص رونے نہ پائے۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ” عقیل ” اور ” زمعہ ” اورایک پوتا ” حارث بن زمعہ ” قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھاوہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائےلیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتاتھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آوازآئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے ؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونےکی اجازت ہو گئی ہے ؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیےبے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہیہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جسکے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے
اَتَبْکِيْ اَنَ يَّضِلَّ لَهَا بَعِيْرٌ وَ يَمْنَعُهَا مِنَ النَّوْمِ السُّهُوْدُ
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پررو رہی ہے ؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کو روک دیا ہے۔
فَلاَ تَبْکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَّ لٰکِنْ عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن “بدر” پرروئے جہاں قسمتوں نے کوتا ہی کی ہے۔
وَ بَکِّيْ اِنْ بَکَيْتِ عَلٰي عَقِيْلٍ وَ بَکِّیْ حَارِثًا اَسَدَ الْاُسُوْدِ
اگر تجھ کو رونا ہے تو “عقیل” پر رویا کراور “حارث” پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
وَبَکِّيْهِمْ وَ لَا تَسَمِيْ جَمِيْعًا وَ مَا لِاَبِيْ حَکِيْمَةَ مِنْ نَدِيْد
اور ان سب پر رویا کر مگر ان سبھوں کا ناممت لے اور ” ابو حکیمہ ” ” زمعہ ” کا تو کوئی ہمسر ہی نہیں ہے۔( ابن هشام ج ۲ص ۶۵۷)
عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش
ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہمیں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے۔ ایک دم صفوان بول اُٹھا کہ اے عمیر! میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میںدل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ عمیر نے کہاکہ اے صفوان ! تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میرے اعزہو اقرباء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قیدمیں ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتاتو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سےمحمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کر صفوان نے کہاکہ اے عمیر ! تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔ میں خدا کے گھر میں عہدکرتا ہوں کہ تمہارا سارا قرض ادا کردوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہدار ہوں۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کرگھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰعنہ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر ! کس ارادہ سے آئے ہو ؟ جواب دیاکہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہمیں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے ؟ عمیر یہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آگیااور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن گنگن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمانہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔(تاريخطبری ص۱۳۵۴)
مجاہدین بدر کے فضائل
جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنگِ بدر کے جہاد میں شریک ہو گئے وہ تمام صحابہ میں ایک خصوصی شرف کے ساتھ ممتاز ہیںاور ان خوش نصیبوں کے فضائل میں ایک بہت ہی عظیم الشان فضیلت یہ ہے کہ ان سعادت مندوںکے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
“بے شک اﷲ تعالیٰ اہل بدر سے واقف ہے اوراس نے یہ فرما دیا ہے کہ تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکیہے یا (یہ فرمایا) کہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔”(بخاری باب فضل من شهد بدرًا ج۲ ص۵۶۷)
ابو لہب کی عبر تناک موت
ابولہب جنگ ِ بدر میں شریک نہیں ہو سکا۔جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی جنگ ِ بدر کے حالات سن کرابولہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوگیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیا اور آٹھویں دن مر گیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتےتھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے بیٹوں نےبھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایکگڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سےمٹی ڈال دی اور بعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدرپتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (زُرقانی ج۱ ص۴۵۲)
________________