*** امام بخاری کی دعا ***
شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھولینے کے باوجود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی حاسدوں اور دشمنوں سے محفوظ نہیں رہے عمر کے آخری حصے میں جب آپ بخارا میں مقیم ہوکر صحیح بخاری کا درس دینے میں مشغول تھے حاسدین خلافت راشدہ کے کے نائب خالد بن احمد ذہلی والئی بخارا کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ امام بخاری کو کہیے کہ وہ آپ کے صاحبزادے کو گھر آ کر پڑھایا کریں جب والئی بخارا نے امام بخاری سے یہ فرمائش کی تو آپ نے فرمایا میں علم سلاطین کے دروازے پر لے جا کر ذلیل نہیں کرنا چاہتا جس شخص کو پڑھنے کی ضرورت ہے اس کو میرے درس میں آنا چاہیے. والئی بخارا نے کہا اگر میرا لڑکا درس میں آےء تو وہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا آپ کو اسے علیحدہ پڑھانا ہوگا امام بخاری نے جواب دیا میں کسی شخص کو احادیثِ رسول صل اللہ علیہ وسلم کی سماعت سے روک نہیں سکتا یہ جواب سن کر حاکم ناراض ہو گیا اس نے ابن الوقت علماء سے امام بخاری کے خلاف فتوی حاصل کرکے انہیں شہر سے نکل جانے کا حکم دے دیا
امام بخاری بے وطن ہونے پر بہت آزردہ ہوئے ابھی ایک ماہ نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے والئی بخارا خالد بن احمد ذہلی کو معزول کر دیا اور اسے گدھے پر سوار کرا کے محل سے نکالا گیا اور قید خانہ میں بند کردیا گیا جہاں وہ ذلت اور رسوائی سے چند دن گزارنے کے بعد ہلاک ہوگیا اسی طرح جن لوگوں نے والئی بخارا کی معاونت کی تھی وہ سب مختلف بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئے.
بخارا سے نکلنے کے بعد امام بخاری نے سمرقند کا قصد کیا ابھی سمرقند سے کئی منزل دور تھے آپ کو اطلاع ملی کہ اہلِ سمرقند میں آپ کے بارے میں دو آراء ہوگی. یہ سن کر آپ وہیں راستہ میں حرتنگ نامی ایک بستی میں رک گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوتی جارہی ہے مجھے اپنے پاس واپس بلالے اس دعا کے بعد آپ بیمار پڑ گئے اس اثناء میں اہل سمرقند نے آپ کو بلانے کے لیے آپ کے پاس قاصد بھیجا آپ جانے کے لئے تیار ہوےء مگر طاقت نے ساتھ نہ دیا آپ نے چند دعائیں پڑھیں اور لیٹ گئے جسم سے پسینہ بہنا شروع ہوا ابھی پسینہ خشک نہ ہوا تھا کہ آپ نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی
اقتباس : تزکرة المحدثین