top of page

سواد اعظم کون ہیں؟؟؟

سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الكریم

 

عن انس بن مالك قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان امتی لا تجمع علٰی ضلالة فاذا رأیتم اختلافاً فعلیكم بالسواد الاعظم۱

ترجمہ:"حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا كہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا كہ میری امت گمراہی میں جمع نہ ہوگی۔جب تم اختلاف دیكھو تو سب سے بڑی جماعت كو لازم پكڑو۔

بعض لوگ سوال كیا كرتے ہیں كہ اسلام میں فرقہ بندی كیوں؟ اس كا جواب یہ ہے كہ حضور سید ِ عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اس اختلاف و افتراق كی بابت پیشین گوئی فرمائی تھی كہ:

والذی نفس محمد بیدہ لتفرقن امتی علٰی ثلٰث وسبعین فرقة فواحدة فی الجنة وثنتان وسبعون فی النار(ابن ماجہ)

ترجمہ: اس ذات پاك كی قسم جس كے دست ِ قدرت محمد ﷺ كی جان پاك ہے كہ میری امت ۷۳ فرقوں میں منقسم ہوجائے گی (ان میں سے) ایك جنت میں جائے گا۔ اور ۷۲ دوزخ میں جائیں گے۔

حضور ﷺ كی یہ پیشین گوئی انسانی فطرت كے عین مطابق تھی۔ نظامِ كائنات اور رفتارِ زمانہ بھی اس پر شاہد ہے۔

ہم دیكھتے ہیں كہ نسلِ انسانی ابتداء ً چند اصول كو تسلیم كرلیتی ہے۔پھر مرورِ زمانہ كی وجہ سے اس كے بعض افراد كے خیالات میں ان مانے ہوئے اصول كے متعلق تفاوت اور اختلاف پیدا ہوجاتا ہے بلكہ زیادہ مدت گزرنے كے بعد وہ اختلاف كچھ ایسی نوعیت اختیار كرلیتا ہے كہ اس جماعت میں سے ایك فرد بھی مسلمہ اصول پر قائم نہیں رہتا لیكن آسمانی اور الہامی اصول اور سچے دین كی امتیازی شان یہ ہے كہ اس دین كو قبول كرنے والوں میں سے ضرور ایك جماعت ایسی ہوتی ہے جو اس كثرت اختلاف كے باوجود بھی حق و صداقت پر قائم رہتی ہے اور فرقہ بندی كا طوفان اس كے پائے استقلال كو ڈگمگا نہیں سكتا۔

مختصر یہ كہ غلط اصول كا ذِكر ہی كیا؟ جب ان كی بنیاد ہی باطل پر ٹھہری تو ان میں حقانیت و صداقت كا تصور بھی نہیں ہوسكتا۔ تاریخِ عالم گواہ ہے كہ الہامی اور آسمانی تعلیمات میں بھی نسلِ انسانی نے اس قدر اختلاف كیا كہ مدت مدید كے بعد ان كو قبول كرنے والوں كی اتنی قلیل تعداد حق و صداقت پر باقی رہی كہ اسے ۷۱ یا ۷۲ یا ۷۳ حصوں میں سے ایك حصہ كہا جاسكتا ہے۔ انسان كی اس فطرت كے ساتھ گردشِ كائنات كا نقشہ بھی ہماری نگاہوں كے سامنے ہے۔رفتارِ زمانہ كے اثر سے زمانیات میں جو تفاوت پایا جاتا ہے اس كا انكار بھی نہیں ہوسكتا۔زمانیات كے بہت تھوڑے افراد ایسے ہوتے ہیں جو اس گردشِ لیل و نہار سے متاثر ہوكر مختلف اور متفاوت نہیں ہوتے اور اپنے پہلے حال پر قائم رہتے ہیں۔

بہر حال اس فطری اصول كے موافق ہادئ اعظم نور مجسم ﷺ كی پیشین گوئی عقلِ سلیم كے عین مطابق ہے اور واقعات نے ثابت كردیا كہ حضور ﷺ نے اختلافِ امت كے بارے میں جو كچھ فرمایا وہ عین حق و صواب پر مبنی تھا۔

لیكن اس مقام پر جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے كہ اس دورِ اختلاف و افتراق میں حق پسند اور نجات پانے والے گروہ كا كیسے پتہ چلے اور كیوں كر معلوم ہو كہ موجودہ فرقوں میں حق پر كون ہے۔

اس حدیث پاك میں حضور اكرم ﷺ نے یہی بات ارشاد فرمائی ہے كہ 

فاذا رأیتم اختلافا فعلیكم بالسواد الاعظم

ترجمہ: جب تم اختلاف دیكھو تو سب سے بڑی جماعت كو لازم پكڑو۔

یہاں اختلاف سے مراد اصولی اختلاف ہے جس میں "كفر و ایمان" اور "ہدایت و اختلاف" كا فرق پایا جائے۔ فروعی اختلاف ہر گز مراد نہیں،كیونكہ وہ تو رحمت ہے۔جیسا كہ حدیث شریف میں "اختلاف اُمتی رحمة" میری امت كا (فروعی) اختلاف رحمت ہے۔

اس تفصیل كو ذہن میں ركھ كر موجودہ اسلامی فرقوں میں اس بڑے فرقے كو تلاش كیجئے جو باہم اصولاً مختلف نہ ہو تو میں دعویٰ سے كہتا ہوں كہ آپ كو ایسا فرقہ اہلسنّت وجماعت كے سوا كوئی نہ ملے گا۔جس میں حنفی، شافعی،مالكی، حنبلی، قادری، چشتی،سہروردی،نقشبندی، اشعری، ماتریدی سب شامل ہیں،یہ سب اہلسنّت ہیں اور ان كے مابین كوئی ایسا اصولی اختلاف نہیں جس میں كفر و ایمان یا ہدایت و ضلالت كا فرق پایاجائے۔

حنفی امام شافعی رحمةاللہ علیہ كو اختلافی مسائل میں خطا اجتہادی پر تسلیم كرتے ہیں۔مگر ان كے مسائل كو (خطا اجتہادی پر مبنی ہونے كے باوجود) ان كے حق میں ہدایت سے خالی نہیں سمجھتے۔ بخلاف معتزلہ، مرزائیہ، روافض و خوارج وغیرہم كے كہ ان میں بعض گروہ ایسے ہیں جو اہلسنّت كے نزدیك دائرہ اسلام و ایمان سے خارج ہیں اور بعض وہ ہیں كہ ہدایت سے بے بہرہ ضلالت میں مبتلا ہیں۔

لہٰذا اس دورِ پُرفتن میں حدیث مذكور كی رو سے سوادِ اعظم و اہلسنّت و جماعت كا حق پر ہونا ثابت ہوا جیسا كہ شیخعبدالغنی رحمةاللہ علیہ انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ میں اسی حدیث پر ارقام فرماتے ہیں۔

فہذا الحدیث معیار عظیم لاہل السنة والجماعة شكر اللہ سعیہم فانہم ہم السواد الاعظم وذلك لا یحتاج الی برہان فانك لو نظرت الی اہل الاہواء باجمعہم اثنتان وسبعون فرقة لا یبلغ عددہم عشر اہل السنة واما اختلاف المجتہدین فیما بینہم وكذالك اختلاف الصوفیة الكرام والمحدثین العظام والقراء الاعلام فہو إختلاف لا یضلل احدہم الآخر الخ ۱

یعنی یہ حدیث اہلسنّت و جماعت (اللہ تعالیٰ ان كی سعی كو مشكور فرمائے) كے لیے معیارِ عظیم ہے۔بے شك وہی سوادِ اعظم ہیں اور یہ امر كسی برہان كا محتاج نہیں۔تمام اہل ہوا باوجودیكہ بہتر فرقے ہیں ان كو اگر تم دیكھو تو وہ اہلسنّت كے دسویں حصہ كو بھی نہیں پہنچ سكتے۔ رہا مجتہدین اور اسی طرح صوفیائے كرام اور محدثین عظام اور قراء اعلام كا باہمی اختلاف تو وہ ایسا ہے كہ جس كی وجہ سے كوئی ایك دوسرے كی تضلیل نہیں كرتا۔

یہاں بعض لوگ یہ شبہ كیا كرتے ہیں كہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے كہ

مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُہُمُ الْفَاسِقُوْنَ

ان میں سے بعض مومن ہیں اور اكثر فاسق ہیں۔نیزارشاد فرمایا

"اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْر

" عمل كرو اے آلِ داؤد ( ؈ ) شكر كا اور كم ہیں میرے بندوں سے شكر كرنے والے۔

ان كے علاوہ اور آیات سے بھی یہ ثابت ہے كہ مومن اور نیك بندے قلیل ہیں۔اس لیے یہ حدیث قرآن مجید كے خلاف ہے۔لہٰذا قابل قبول نہیں۔

اس كا جواب یہ ہے كہ اول تو یہ بات یاد ركھنی چاہیے كہ مدار نجات ایمان پر ہے۔ایمان ركھنے والوں میں بھی ایسے لوگوں كی تعداد كم ہوتی ہے جو حسب استطاعت اللہ تعالیٰ كی پوری شكر گزاری كرنے والے اور كامل مومن ہوں۔

دوسرے یہ كہ جن آیتوں میںمومنین كو قلیل اور كفار كو كثیر فرمایا گیا ہے وہاں كفار سے وہ بہتر فرقے بالخصوص مراد نہیں جو مدعی اسلام ہیں بلكہ وہاں كفار سے عام كفارمراد ہیں جن میں اسلام كے مدعی اور منكر سب شامل ہیں اور یہ امر واضح ہے كہ اسلام كے مدعی اور منكر تمام جہان كے كافروں كے مقابلہ میں سوادِاعظم اہلسنّت وجماعت كو لایا جائے تو یہ ضرور قلیل ہوں گے اور وہ كفار یقیناً كثیر ہوں گے۔لہٰذا قرآن و حدیث میں كوئی اختلاف نہیں۔

بعض لوگ كہہ دیا كرتے ہیں كہ دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے فرقہ ناجیہ كے متعلق فرمایا كہ "ما انا علیہ واصحابی" ناجی گروہ وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ كرام كے مسلك پر ہو۔ اس حدیث میں سوادِاعظم كا ذِكر نہیں۔اس كا جواب ظاہر ہے كہ یہ حدیث سوادِاعظم والی كے خلاف نہیں بلكہ اس كو اور واضح كر رہی ہے۔ كیوں كہ "ما انا علیہ واصحابی" والی حدیث میں یہ اجمال باقی ہے كہ حضور ﷺ اور حضور كے صحابہ كے موافق كون ہے؟

۷۳فرقوں میں سے ہر فرقہ یہ كہہ سكتا ہے كہ میرا عقیدہ اور مذہب حضور ﷺ اور صحابہ كرام كے موافق ہے اس صورت میں ناجی گروہ كا پتہ نہیں چل سكتا۔ "علیكم بالسواد الاعظم" والی حدیث نے اس اجمال كو دور كردیا اور اس امر كو واضح كردیا كہ جتنے فرقے اس امر كے مدعی ہوں گے كہ ہمارا دین و مذہب حضور ﷺ اور صحابہ كرام كے موافق ہے وہ سب جھوٹے ہوں گے۔ میرے دین پر جو جماعت صحیح معنی میں قائم رہے گی وہ سوادِاعظم ہوگی۔لہٰذا تم سوادِ اعظم ہی كو لازم پكڑنا۔

اس مقام پر ایك اعتراض كا جواب دینا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ كہ حدیث مباركہ میں مذكور ہے كہ میری امت میں ۷۲ فرقے ناری ہوں گے اور ایك ناجی ہوگا۔حالانكہ اگر ان فرقوں كو دیكھا جائے جو ہمارے نزدیك ناری ہیں تو ان كی تعداد سینكڑوں سے متجاوز ہوچكی ہے۔پھر اہلسنّت كا وہ ایك فرقہ ہمارے نزدیك ناجی ہے اس میں بھی متعدد گروہ پائے جاتے ہیں۔ جیسے حنفی، شافعی،مالكی،حنبلی، علیٰ ہذا القیاس صوفیاء كرام اور علماء متكلمین وغیرہم میں بہت سے گروہ ہیں۔حالانكہ ہم ان سب كو ناجی سمجھتے ہیں۔اس حدیث سے تو یہ ثابت ہے كہ ناجی فرقہ صرف ایك ہے۔

اس كا جواب یہ ہے كہ حدیث مباركہ میں ۷۲ ناری فرقوں سے وہ فرقے مراد ہیں جو كفر و الحاد اور گمراہی و بے دینی كا سرچشمہ اور جڑ ہیں۔ اسی طرح ایك ناجی گروہ سے وہ نجات پانے والا فرقہ مراد ہے جو اسلام اور ایمان ہدایت و رحمت كا منبع اور اصل و بنیاد ہے۔ظاہر ہے كہ ایك جڑ سے كئی شاخیں نكلتی ہیںمگر ان كی اصل وہی جڑ ہے جس سے وہ نكلتی ہے۔شاخوں كی كثرت سے جڑوں كی كثرت لازم نہیں آتی۔جیسے ایك قیبلے میں كئی خاندان ہوتے ہیں اور ہر خاندان میں كئی گھر اور ہر گھر میں كئی افراد،اسی طرح گمراہی كی ۷۲ جڑوں اور ضلالت كے بہتر قبیلوں سے سینكڑوں كیا ہزاروں بلكہ لاكھوں كی تعداد میں بھی اگر شاخیں اور خاندان و افراد پیدا ہوجائیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا كہ ان كی اصل اور قبیلے بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں۔مختصر یہ كہ جس طرح گمراہی كی ۷۲ جڑوں سے سینكڑوں ہزاروں شاخیں پیدا ہوگئیں (جنہیں فرقوں میں شمار كرلیا گیا) اسی طرح ہدایت كی ایك جڑ سے كئی شاخیں پیدا ہوئیں۔ مگر یاد ركھیے ضلالت كی جڑ كی ہر شاخ ضلالت ہوگی اور ہدایت كی جڑ سے جو شاخیں نمودار ہوں گی وہ سب ہدایت قرار پائیں گے۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

"وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا"

جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد كیا (عام اس سے كہ وہ جہاد جانی ہو یا مالی، جسمانی ہو یا روحانی ہو، جہاد اصغر ہو یا جہاد اكبر ہو) ہم انہیں اپنی راہوں كی طرف رہنمائی فرمائیں گے۔

اس آیت كریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سبیل كی بجائے سُبُل فرمایا۔یعنی یہ نہیں فرمایا كہ ہم انہیں اپنی راہ كی طرف راہنمائی فرمائیں گے بلكہ یہ ارشاد فرمایا كہ ہم انہیں اپنی راہوں كی طرف رہنمائی فرمائیں گے۔معلوم ہوا كہ سبیل خداوندی ایك نہیں بلكہ متعدد ہیں اور وہی ہیں جن كا مبداء اور مركز فرقہ ناجیہ السواد الاعظم اہلسنّت وجماعت ہو۔جیسے حنفی،شافعی، مالكی،حنبلی، چشتی،قادری،سہروردی، نقشبندی،ماتریدی، اشعری وغیرہم۔

ثابت ہوا كہ اس اختلاف و افتراق كے دور میں نجات كا ذریعہ صرف یہ ہے كہ حدیث مباركہ "علیكم بالسواد الاعظم" كے مطابق مسلمانوں كے سب سے بڑے گروہ اہلسنّت و جماعت كو لازم پكڑ لیا جائے اور اس كے علاوہ دیگر تمام مذاہب باطلہ سے علیحدگی اختیار كی جائے۔

 

واللہ الموفق للہدایة وہو المرسل الی سبیل الرشاد

 

سید احمد سعید كاظمی غفرلہٗ

ان اولوہابیۃ قوم لا یعقلون

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے 

یہ گھٹائیں اسے منظور بڑھانا تیراآآ

فیس بُک پر ہمارا پیج لائک کریں
 

کچھ لوگ فیس پر پر ہمارے سنی بھائیوں کو بہکا رہے ہیں ان سے بچنے کے لئے ہمارا پیج لائک کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  • s-facebook

اللہ پاک ہم سب کو ان نجدیوں کے فتنے سے محفوظ رکھے (امین)
 
یہ وہابی نجدی اللہ اور اس کے رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء امت کے گستاخ ہیں اور ان کا ناجی گروہ سے کوئی تعلق نہیں

bottom of page