٭٭٭ فکرِ رضا اور ہماری ذمہ داریاں ٭٭٭
اسلامی معاشرے کے استحکام اور اسلامی ثقافت کے فروغ کی بنیاد تعلیم کوقرار دیا گیا اور ساتھ ہی ایک مہذب معاشرہ کے قیام کیلئے قرآن وحدیث کے سمجھنے کے ساتھ دیگرعصری علوم وفنون جوانسانی زندگی کے فارغ طلباء بڑے بڑے ماہر فلکیات‘ طبیعات داں‘ طبیب‘ ریاضی داں بنے جن میں البیرونی‘ الخوارزمی‘ بوعلی سینا‘ ابن الہیشم وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ یہ ان تعلیمی اداروں سے پڑھے یا ان کے فضلاء وعلما سے یہ علوم سیکھے۔ لیکن آگے چل کربدقسمتی سے مسلمان تقریباً 500 سال خواب غفلت میں رہے۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک ایسی ہستی پیدا کی جس نے ہمارے اسلامی علوم کوزندہ فرمانے کے ساتھ ساتھ 500 سال سے منقطع سلسلے کے ساتھ دوبارہ جوڑدیا۔ جس کی سائنسی خدمات اس قدرزیادہ ہیں کہ وہ نوبل انعام کیلئے باعث فخرتھے حالانکہ ان کیلئے نوبل انعام کی کوئی اہمیت نہیںتھی جس نے علم ریاضی‘ فلکیات‘ طبیعات پر72 کے قریب کتابیں لکھ کرپوری دنیا کواورمذہبی رہنمائوںکوحیرت میںڈال دیا۔ اس دور میں بھی وہ پوری دنیا کے سائنس دانوں کیلئے ایک اہمیت اختیار کرگیا جب کہ وہ کسی مغربی سائنس داں سے بغیر سیکھے اتنی مہارت حاصل کرگیا جوکہ آج ایک صدی بعد بھی ریاضی‘ فزکس میں ایم ایس سی کرنیوالا بھی حاصل نہیں کرسکتا۔
اس عظیم ہستی کے سائنس میں کارناموں کا اصل مقصد مسلمانوں کویہ بتانا تھا کہ سائنسی علوم سیکھو اور سکھائو لیکن قرآن وحدیث کے عین مطابق کیونکہ سائنسی علوم بذات خود قرآنی علوم کی شاخ ہے۔
وہ ہستی یہ درس دے رہی تھی کہ ہم اپنے مذہبی تعلیمی اداروں میں ان جدید علوم کوبھی سکھائیں انہوں نے ہمیں معاشیات‘ سیاسیات وغیرہ میں بھی رہنمائی فرمائی۔ مختصر یہ کہ ان کی خالصتاً سائنسی خدمات ان کی کل خدمات کادس فیصد حصہ کے برابر ہیں یعنی اگر کسی شخص نے اس ہستی کی علمی قابلیت کااندازہ کرنے کیلئے ان کے کارناموں کوعلیحدہ کردیا تو اس نے ان کی شخصیت کا دس فیصد حصہ علیحدہ کردیا۔
مگرافسوس کہ وہ آیا اور چلا گیا اورہم بالکل اسی طرح خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اورآج بھی اپنے اکابرکوچھوڑ کرغیروں سے استفادہ کررہے ہیں اور اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے۔ ہم نے ایسا کرکے اپنے ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ اور پورے عالم اسلام کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ظلم کاسب سے زیادہ ذمہ دارکون ساطبقہ ہوسکتا ہے۔ (1)علما کاطبقہ (2) طالب علموںکاطبقہ (3) عوام۔
میرے خیال میں علماء ہی کے فرائض منصبی میں سے یہ کام بھی تھا کہ اس ہستی کے کارناموں کواگلی نسلوں تک پہنچاتے اور اسی راستے کاانتخاب اپنے لئے بھی کرتے جس کی ہدایت اس عظیم رہنما نے کی تھی۔ آپ کاذہن اس ہستی کے بارے میں ضرور سوچ رہا ہوگا کہ ایسی کون سی ہستی برصغیر میں پیداہوئی جوکہ ایک وقت میں اعلیٰ پایہ کی ماہرفلکیات‘ طبیعات‘ ریاضیات‘ ارضیات‘ فلسفہ ان کی تمام شاخوں کے ساتھ ساتھ زمانے کے امام ابوحنیفہ جتنا مقام رکھتی تھی۔ جی ہاں اس ہستی کوامام ابوحنیفہ ثانی میں نہیںکہتا یہ توعلامہ کوثر نیازی نے کہا تھا کہ ان کی دینی خدمات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ ثانی ہیں۔ جس عظیم ہستی کوہم بھول گئے وہ ہستی حضرت علامہ مولانا شاہ احمد رضا فاضل بریلوی کی ہے جوکہ محدث‘ مفسر‘ متقی‘ عالم‘فلسفی‘ منطقی‘کامل‘ مجدد برحق‘ کے القابات بھی رکھتا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم نے اس کے احسانات کوپسِ پشت ڈال کراور اس کی خدمات کونظرانداز کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کی زمہ داری صرف اور صرف علماء پر عائد ہوتی ہے۔ جواسے آج کی دنیا میں صرف اور صرف ایک شاعر کی حیثیت سے پیش کرسکے۔ اس کے جانشین اس کا پیغام صرف برصغیر میں بھی نہ پہنچا سکے جسکی وجہ سے سے عوام کی بہت بڑی تعداد اس عظیم مذہبی سیاسی رہنما کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور کچھ اس کی شخصیت کے منفی پروپیگنڈہ کرکے اس کی اہمیت کوختم کرنا چاہتے ہیں جوکہ اس عظیم رہنما کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔
البتہ علماء نے اپنے شرعی مسائل میں دلیل کے طورپر ان کانام استعمال کیا‘ اپنی تقریروں کی چاشنی کیلئے ان کی شاعری کواستعمال کیا‘ اپنے فتاویٰ کومدلل بنانے کیلئے ان کی تصانیف کاحوالہ دیا۔
یعنی معمولی سی محنت کے بعد اس عظیم ہستی کے علمی کارناموں سے استفادہ کرکے لوگوں نے بہت بڑی شہرت حاصل کی جوکہ امام کا مسلمانوں پر بالعموم اور علماء پربالخصوص بہت بڑا احسان ہے۔ ڈاکٹرمحمد مسعود لکھتے ہیں کہ کئی لوگ ان کی کتابوں کوپڑھ کربڑے بڑے مفتی‘ مناظر‘ مبلغ بن گئے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس عظیم علمی شخصیت کوپورے عالم اسلام میں اسکی تمام ترخدمات کے ساتھ پیش نہ کرکے پورے عالم اسلام بلکہ بنی نوع انسان اور اﷲعزوجل کے مجرم قرار پائے ہیں۔
ہماری رہنمائی کیلئے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے اپنے خون جگرکوجلا ڈالا لیکن ہماری غفلت‘ لاپرواہی‘ کاہلی ‘ سستی نے مسلمانوں کوان کے عظیم رہنما کی خدمات سے ناواقف رکھا۔
ہم بالخصوص علما کاطبقہ غفلت کی اتنی گہری وادیوں میں چلا گیا اور باہمی دست وگریباں ہوکراپنی توانائی کوایک دوسرے کواکھاڑنے اور پچھاڑنے‘ اسے نیچا دکھانے‘ ملزم ومجرم قرار دینے کیلئے خرچ کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے ہمیں اپنی اصل ذمہ داریوں کو‘ فرائض کوپس پشت ڈالنا پڑا۔ اب توہمارے باہمی تنازعوں نے ہماری ذہنی کیفیت ایسی بنادی ہے کہ ہم اپنے اصلی مقصد ومنزل کوہی بھول گئے ہیں ہمیں (یعنی علماء کرام کو) کیا کرنا چاہیے‘ کیا بتانا چاہیے‘ کیا لکھنا چاہیے‘ کیا کچھ کیا ہے‘ کتنا کچھ کیا ہے اورکیسے کیا ہے؟ علماء کے باہمی تنازعات نے جہاں ملت اسلامیہ کونقصان پہنچایا وہاں ان کی ان لاپروائیوں کی وجہ سے ہم سے امام احمد رضا جیسی ہستی کے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی ہوئی ظلم ہوا۔
مثلاً (1) ترجمہ قرآن کنزالایمان ایسا آسان‘ پاکیزہ الفاظ سے مزین ترجمہ قرآن جس کو ابھی تک کے عوام بھی نہیںجانتے اور عوام کی ایک بڑی تعداد میں اسی ترجمہ کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کردیا گیا ہے جب کہ کم از کم پاکستان اور ہندوستان کی توتمام زبانوں جس میں پنجابی‘ پشتو‘ بلوچی‘ ہندی‘ سندھی‘ بنگالی‘ گوجری ودیگر اور باقی بین الاقوامی زبانوں میں مثلاً فارسی‘ جرمنی‘ فرانسسی‘ چینی‘ کوریائی میں بھی دستیاب ہونا چاہیے تھا جبکہ انگریزی میںبھی پورے پچاس سال بعد ترجمہ کیاگیاوہ بھی کسی عالم دین نے نہیں بلکہ غیرعالم دین کی کاوش ہے۔
اسی طرح سائنسی کتابوں کی صرف فہرست جاری کرکے ادارہ تحقیقات امام احمد رضا سے وابستہ علماء اور باقی سارے علماء مطمئن ہوجاتے ہیں جب کہ باقی امام احمد رضا کی پوری ایک ہزار سے زائد کتابیں پورے برصغیر کے کسی’’مکتبہ‘‘ بک اسٹال سے نہیں مل سکتی ہے البتہ صرف فہرست شائع کرکے تمام ادارہ اورعلماء بری الذمہ ہوجاتے ہیں بلکہ وہ اسی کوہی بہت بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔
اعلیٰ مقام ہستیوں میں سے کسی کوبھی خیال نہیں آیا کہ ہم خود یہ کام کرسکتے تو حکومتی سطح پرقائم نیشنل بک فائونڈیشن‘ پاکستان ایک سرکاری ادارہ سے رابطہ کرلیا جائے۔ اگروہ چھوٹے سے مولویوں کی کتابیں شائع کرسکتا ہے تواتنے بڑے عظیم رہنما کی کتابیں توبڑی خوشی سے شائع کرتا لیکن آج ایک صدی گزرنے اور تریسٹھ سال پاکستان بنے ہوگئے کسی نے اس ادارہ کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹایا۔
افسوس تواس بات کا ہے اور آپ بھی سن کرضرور رنجیدہ ہوں گے کہ ابوالاعلی مودودی جس کے پیروکار اور خودساختہ اسلام کے ماننے والے پورے ملک کی آبادی کاتقریباً دوفیصد ہوں گے اس کی تقریباً تمام اہم کتابوں کاترجمہ دنیا کی تیس زبانوں میں آج سے چند برس قبل ہوچکا ہے اور عالم اسلام کے عظیم رہنما جس کے ہم خیال اور نظریاتی شاگردوں کی تعداد برصغیر میں ستر فیصد سے زیادہ اور پورے عالم اسلام میں اسی فیصد ہے ان تک اس کا پیغام نہ پہنچایا جاسکا۔
ایم اے اسلامیات خالصتاً مذہبی مضمون ہے جس کاتعلق مذہب سے اتنا گہرا ہے جتنا کہ درس نظامی کے مدارس نصاب کا۔ اس خالصتاً مذہبی نصاب میں شامل تمام کتابیں ان لوگوں کی ہیں جوامام احمدرضا کے دشمن ہیں جن کی تعداد کل آبادی کاپچیس فیصد کے قریب ہے۔ انہوں نے چالاکی ہوشیاری سے ایسے چھوٹے موٹے اورخودساختہ مولویوں کی کتابوں کوکورس میں شامل کیا ہے اور آج وہ وقت کے امام بن رہے ہیں۔ نئی نسل کواس کے حقیقی بزرگوں سے دورکرنے کی اس گھنائونی سازش کے خلاف کسی عالم دین نے آواز نہیں اٹھائی۔ عوام اہل سنت کے خون جگر سے چلنے والی مذہبی تنظیموں کے رہنمائوں نے کبھی کوشش نہیںکی۔ کسی نے بھی یونیورسٹیوں کے نصابی کمیٹیوں سے کبھی رابطہ نہیںکیا۔ کسی نے بھی نصاب کے متعلق کسی بھی دور حکومت میں وزیرتعلیم سے مطالبہ نہ کیا‘ کسی نے بھی اس خالصتاً مذہبی مسئلے پرکبھی احتجاج نہیں کیا۔ چونکہ اخبارات اور رسائل کوبیانات جاری کرنا سیاسی عمل کا ایک اہم حصہ ہے تو ہماری مذہبی تنظیموں نے اس کے متعلق کبھی سیاسی بیان بھی جاری نہیں کیا کہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں اہل سنت کی بھی کتابوں اور مصنفوں کوشامل کیا جائے۔
شیعہ جوکہ کل آبادی کے تقریباً پندرہ فیصد اور مودودی جوکہ کل آبادی کادوفیصد ہیں ان کی کتابیں ان کے جانشینوں اور مذہبی رہنمائوں نے شامل کرالیں۔ اہل حدیث جوکہ کل آبادی کادوفیصد بھی نہیں ہیں ان کی کتابیں شامل ہیں‘ دیوبندی جوکہ کل آبادی کا22 فیصد ہوں گے ان کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کے رہنمائوں نے‘ علماء نے اپنے مصنفوں اور اکابرین کی کتابیں شامل کرالیں جبکہ اہل سنت جوکہ کل آبادی کا 65 فیصد ہیں ان کے کسی مصنف کی کوئی کتاب شامل نصاب نہیں‘ حتیٰ کہ امام احمدرضا علیہ الرحمہ کی بھی کسی تصنیف کو اور علمائے اہل سنت کی کتابوں کوناقابل قبول اور غیرمعیاری بتایا گیا ہے لیکن علماء کرام اور مذہبی سیاستدانوں اور اہل سنت کے عوام جن کی آواز پراپنی جانوں کوقربان کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں انہوں نے اس قدر غفلت کامظاہرہ کرکے آنے والی نسلوں کے بارے میں نہ سوچا کہ وہ کیا کررہی ہیں؟ وہ کیا پڑھ رہی ہیں‘ کیاسیکھ رہی ہیں؟ اور یونیورسٹی میں اس نصاب کوپڑھنے والے طالب علم وہ ہوتے ہیں جن کے رہنما وقائد اپنے آپ کوامام احمد رضا کا پیروکار کہتے ہیں‘ مگر عملی طورپروہ کردارِ رضا کو‘ افکارِ رضا کومسلمانوں تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں اور اہم مسئلہ جس کی طرف میں عوام وخواص کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ اسکولوں کانصاب ہے جس میں ہمیشہ بچوں کوان کے اکابر مذہبی وملی رہنمائوں‘ محسنوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے ذہنوں میں ان لوگوں کی محبت اور عزت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جائیں۔
کتابوں میںجن لوگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے مثلاً رشید احمد گنگوہی‘ اشرف علی تھانوی‘ قاسم نانوتوی‘ شبیرعثمانی‘ عبیداﷲ سندھی‘ سیداحمد بریلوی‘ اسماعیل شہید وغیرہ۔ ایک طرف تواسی فیصد ملکی آبادی ان لوگوں کی اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی کوبالکل نہیںجانتی۔ ہمارے علماء نے’’تحریک بالاکوٹ‘‘ کے بارے میں حقائق کوعوام اہل سنت کے سامنے صحیح طرح سے پیش نہ کیا۔ ’’سید احمد بریلوی‘‘ جسے مجدد کہا جاتا ہے اس کے چہرے سے یہ نقاب نہ اتارا ’’جمعیت علماء ہند‘‘ اور دیگر پاکستان کے خلاف سازشوں کوعوام اہل سنت کے سامنے لانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
دوسری طرف یہ ظلم کیاگیا کہ انتہائی اہم معاملہ میں اس قدر چشم پوشی کی گئی کہ ہماری نئی نسلیں ہم سے سوال کررہی ہیں کہ اگر یہ لوگ ہمارے اصلی رہنما ہیں تو جواصلی رہنما ہیں ان کے کردار کوکیوں تہہ خانوں میںاتارا گیا ہے۔ کتابوں‘ رسالوں‘ اخباروں میں شامل کیوں نہیں کرایاجاتا۔ تواس کاجواب کسی بھی مذہبی‘ سیاسی‘ مسلکی تنظیم اور شخصیت کے پاس موجود نہیں ہے۔
اگر شیعہ محرم کے متعلق کوکورس میں شامل کراسکتے ہیں توہم عیدمیلادالنبی ﷺ‘ گیارہویں شریف کے تذکرہ کی شمولیت کیلئے کوششیں کیوں نہیں کرتے۔ حضور غریب نواز‘ حضورداتا گنج بخش‘ امام احمدرضا مفتی اعظم ہند‘ پیرمہر علی شاہ‘ عبدالعلیم‘ پیرجماعت علی شاہ‘ وغیرہ ہم کا ذکر نصاب کی کتابوں میں کیوں نہیں ملتا جنہوںنے اپنے عمل‘ تحریروتقریر کے ذریعے پورے ہندوستان وپاکستان میںتبلیغِ اسلام کی امن وآشنی کا پِرچار کرکے دنیا بھر میں ان ممالک کا نام اونچا کیا۔
دراصل ہمارے ذاتی اختلافات ہمارے لئے اس قدر اہمیت اختیار کرچکے ہیں کہ ہم اہم ِملی‘ ملکی‘ مسلکی ذمہ داریوں کے بارے میں لاعلم ہیں۔ ہم اپنی اپنی تنظیموں کومضبوط کرنے کے چکر میں دوسرے اپنے ہی ہم مسلک رہنمائوں کے خلاف اتنی سازشیں کرجاتے ہیںجس کا ہمیںاندازہ ہی نہیں ہوتا‘ خیال ہی نہیں ہوتا بلکہ سیاسی چکرمیں ایسے پڑگئے ہیں کہ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کوبھی سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ ورنہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ شیعہ آبادی کاکل پندرہ فیصد کی اگرالگ اسلامیات پورے ملک میں رائج ہوسکتی ہے توکل آبادی کے65فیصد کی مرضی کانصاب اورسلیبس کیوں نہیں ہوسکتا۔ ہوسکتا ہے اگر کوشش کرے کوئی احتجاج کرے‘ کوئی جاگے تو پھر‘ دراصل حکومتیں اور یونیورسٹیاں اوربورڈ تواس بات کا انتظار کرتی ہیں کہ ہم سے کوئی مطالبہ کرے اور ہم کریں گے۔ جن لوگوں نے اپنے اکابرین کونصاب اور سلیبس میں شامل کرانا تھا انہوں نے کرالیا۔ ہمارے اکابرین نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیںکی کیونکہ ان کی ساری صلاحیتیں اس وقت زائل ہوجاتی ہیں اگر اس طرف کوشش کرے تواپنا ہی ہم مسلک‘ تنظیم یا شخصیت اس کی مخالفت پراتر آتی ہے۔ اس کا تماشا دیکھنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا مذاق اڑانا شروع کردیتی ہے حالانکہ اسے اس طرح کے مذہبی معاملات میں ساتھ ملنا چاہیے‘ ہاتھوں کومضبوط کرنا چاہیے‘ قوت بن کر‘ مجاہد بن کر‘ مخلص بن کر‘ ذمہ دار بن کر اس کاساتھ دینا چاہیے۔
یہی وہ بیماریاں ہیں جسکی وجہ سے ہم تقسیم درتقسیم ہورہے ہیں۔ مسلسل غفلت ولاپرواہی‘ مسلمانوں کومذہب اسلام کوناقابل تلافی نقصان پہنچارہی ہے۔ یہ کسی فرد واحد کونہیں بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کی بیماری ہے۔ یقیناً یہ بھی ایک کارنامہ ہے میرا خیال ہے کہ اس قدر غفلت کامظاہرہ کرنا ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بذات خود ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ یقیناً ہمارے ان اکابرین کا تذکرہ تو کورس اور سلیبس کاحصہ نہ بن سکا‘ دنیا امام احمد رضا کے کارناموں سے آگاہ تو نہ ہوسکی لیکن ہماری غفلت کا یہ کارنامہ ہمیشہ کیلئے اپنے اثرات مرتب کررہاہے۔ تاریخ کے مستقل باب کی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔ ہماری باہمی جنگ‘ نصاب‘ سلیبس کاحصہ بھی بنے گی یہی ہماری مذہبی تنظیموں کا‘ علماء کااور ہماراناقابل فراموش کارنامہ ہے
٭٭٭
تحریر:
ماہنامہ تحفظ