ایک سخت سرد رات میں خلیفۂ وقت اسلم نامی اپنے خادم خاص کے ساتھ رعایا کی خبرگیری کی خاطر معمول کا گشت کررہے تھے کہ اچانک دور ایک جگہ آگ جلتی دیکھ کر اس طرف چل پڑے ، قریب جاکر دیکھا تو وہ ایک ٹوٹا پھوٹا گھر تھا جہاں ایک خاتون نے چولھے پر ہنڈیا چڑھا رکھی تھی جیسے کھانا پکا رہی ہو اورقریب ہی اس کے بچے رو رہے تھے ۔خلیفہ نے سلام کیا اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی ۔اجازت ملنے پر گھر میں داخل ہوکرپوچھا :تم کون ہواور یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟جواب دیا: اسی شہر کی ہوں اور بچے شدید بھوک کے سبب رو رہے ہیں۔‘‘پھر پوچھا: ہنڈیا میں کیا ہے ؟ عورت جو خلیفہ سے ناواقف تھی ،نے کہا:مجھ غریب کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں، بس ان کا دل بہلانے کے لیے آگ پرپانی چڑھا رکھا ہے تاکہ کھانا پکنے کے انتظار میں بچے سوجائیں جبکہ امیر المومنین کو ہماری کوئی خبر نہیں، ہم ان کے محکوم ہیں، ان کا حق بنتا ہے کہ ہمارا خیال رکھیں، خیر کوئی بات نہیں یہ وقت توکسی طرح گزر ہی جائے گا مگر کل قیامت میں امیر المومنین اور ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ فرمائے گا اور آخرت کی پکڑ بہت سخت ہے۔‘‘خلیفہ اس کی بات پر رونے لگے اور اس سے فرمایا:اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، تمہاری مصیبتیں دور فرمائے مگر امیر المومنین کو کیا خبرکہ تم یہاں اس حال میں ہو؟ خاتون نے سوالیہ انداز میں کہا:وہ ہمارا حاکم ہوکر ہم سے غافل ہے؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ ہم کس حال میں ہیں؟خلیفہ گھر سے باہر آگئے اور خادم کو ساتھ لے کرسیدھے بیت المال پہنچے اور غلے کے گودام سے آٹا،کھجوریں، کچھ رقم اورکھانا پکانے کی ضروری اشیاء جمع کیں اور خادم سے فرمایا: اسلم!یہ میری پیٹھ پر لاد دو۔خادم نے عرض کی: مجھے حکم فرمائیں ، میں اٹھا لیتا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: آج دنیا میں تم میرابوجھ اٹھاکر میری تکلیف برداشت کرلوگے مگرکل قیامت میںجب کوئی جان کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گی کیا اُس دن بھی تم میرا بوجھ اٹھالوگے ؟ یہ سن کر خادم نے سارا سامان خلیفہ کی پیٹھ پرلاد دیا۔وہ سامان لے کر اس خاتون کے گھر پہنچ گئے پھرخلیفہ نے خود آگ جلائی اور اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا۔پھر ایک بڑے پیالے میں ڈال کر اسے ٹھنڈا کیا اوربچوں کو قریب بٹھا کے اپنے ہاتھوں سے کھلایا ۔ پیٹ بھرنے پر بچے خوش ہو گئے،خلیفہ نے بچوں کی دلجوئی کے لیے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا اوروہ کھیلتے کھیلتے سوگئے۔ انہوں نے باقی کھانا خاتون کے سپرد کیا تو وہ کہنے لگی:’’ تم اتنے شفیق اور رحم دل ہو، اس مصیبت کی گھڑی میں تم نے ہماری مدد کی، میرے روتے ہوئے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کے موتی بکھیرے، میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ اللہ عزوجل ہی تمہیں اس کی بہتر جزا عطا فرمائے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تم ہی امیر المومنین بننے کے حق دار ہو۔‘‘خلیفہ نے کہا: تم نے جیسا کہا ایسا با لکل بھی نہیں، میں اور امیر المومنین بننے کا حقدار!یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، ہاں ایک بات ہے اگر تم کبھی امیرالمومنین کے پاس آؤ گی تو مجھے وہاں ضرور دیکھو گی۔‘‘پھرخلیفہ اپنے خادم سے کہنے لگے :’’ اسلم! بھوک بچوں کو جگا کر رُلارہی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنے بچے یاد آگئے اور میں نے تہیہ کرلیا کہ جب تک ان بچوں کی بھوک کو شکم سیری ، رونے کو ہنسنے اور غم کو خوشی میں نہ بدل دوں تب تک چین سے نہ بیٹھوں گا اور نہ ہی واپس گھر جاوں گا۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔‘‘پھر دونوں واپس اپنے گھر آگئے۔
(کنزالعمال، ج۶، ص۲۸۹،الحدیث:۳۵۹۷۳۔الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۴۵۳)
قارئیں! یہ خلیفہ کوئی اور نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ٔ راشد امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ تھے… غور کیجئے کہ ۲۵لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ کی زندگی کے اس ایک واقعہ میں آپ کی سیرت وکردارکے کتنے خوشنما گوشے اپنی خوشبو سے مشام جان کو معطر کر رہے ہیں۔صرف یہ ایک واقعہ آپ کے اخلاق حسنہ،رعایا کی نگہبانی ودیکھ بھال، یتیموں پر شفقت ،غمزدوں کی غم گساری،غریبوں پر رحم، ناداروں کی دلجوئی، بے سہاروں کے ساتھ ہمدردی،عاجزی وانکساری،زہد وتقوی،خشیتِ الہٰی ،اطاعتِ الہٰی ،اتباعِ رسول،احساسِ ذمہ داری،بیت المال سے حق دار کی خیر خواہی،یادِ آخرت وغیرہ صفاتِ عالیہ پر شاہد عدل ہے ۔
٭٭٭٭٭ نام،نسب ،کنیت،ولادت ٭٭٭٭٭
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا نام نامی اسم گرامی’’ عمر بن خطاب‘‘ ہے، دورجاہلیت اور اسلام دونوں میں آپ کا نام عمر ہی رہا ،عمر کا معنی ہے’’ آباد کرنے ‘‘یا ’’آباد رکھنے والا‘‘۔چونکہ آپ کے سبب اسلام کو آباد ہونا تھا لہٰذا پہلے ہی سے یہ نام عطا کردیا گیا نیزآپ کا عہد خلافت چونکہ اِسلام کی آبادی کا زمانہ ہے اس لحاظ سے بھی آپ اسم با مسمٰی ہوئے۔(مرآۃ المناجیح، ج۸، ص۳۶۰، ریاض النضرۃ ،ج۱،ص۲۷۲ماخوذ)…آپ کا نسب کچھ یوں ہے: عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قُرْطْ بن رَزَاح بن عدی بن کعب بن لوی قرشی عدوی …نویں پشت میں کعب بن لوی پر جاکر آپ کا نسب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب شریف سے جا ملتا ہے…آپ کی والدہ کا پورانام حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر مخزوم ہے۔(اسد الغابہ،ج۴، ص۱۵۶) …آپ کی کنیت ’’ابو حفص ‘‘ہے اور یہ کنیت میدانِ بدر میں بارگاہِ رسالت سے عطا ہوئی(مستدرک ، ج۴، ص۲۳۹،الحدیث:۵۰۴۲ ) …آپ عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ یوں آپ کی تاریخ ولادت ۵۸۳ عیسوی تقریباً ۴۱سال قبل ہجرت ہے۔(اسد الغابۃ، ج۴، ص۱۵۷)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قبیلہ عدی بن کعب سے تعلق رکھتے تھے ، آپ کے قبیلے والے علم وحکمت و دور اندیشی میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کی کہ سفارت کاری اور عدالت جیسے انتہائی اہم عہدے آپ کے سپرد تھے ۔ (اخبار مکۃ للازرقی، ج۲، ص۲۵۸۔ ریاض النضرۃ، ج۲، ص۳۳۷)
٭٭٭٭٭فاروقِ اعظم کے القابات ٭٭٭٭٭
(1) فاروق : حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے عرض کی گئی کہ’’ہمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ بتائیے‘‘ تو ارشاد فرمایا: حضرت عمر وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے لقب’’فاروق‘‘ عطا فرمایا کیونکہ آپ نے حق کو باطل سے جدا کردکھایا۔(تاریخ ابن عساکر،ج۴۴،ص۵۰)
حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی :حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟ انہوں نے ارشاد فرمایا:حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔(اسد الغابۃ ج۴، ص۱۶۲)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا:’’زمین میں ان کا نام’’ عمر ‘‘اور آسمانوں میں’’ فاروق ‘‘ ہے۔ (ریاض النضرۃ ،ج۱،ص۲۷۳)
اور ایک روایت کے مطابق آپ جب اسلام لائے تو بارگاہِ رسالت میں عرض کی :اب ہم چھپ کرعبادت نہیں کریں گے اور پھر تمام مسلمانوں نے کعبۃ اللہ شریف میں جا کر نماز ادا کی توحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’فاروق‘‘کا لقب عطا فرمایا۔(تاریخ الخلفائ،ص۹۰)
(2)مُحَدَّث :یہ اس شخص کو کہتے ہیں جسے صحیح اور درست بات کا الہام ہو یعنی باری تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ملے ، وہ جب بھی کچھ کہے تو حق کے موافق ہو ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کوبارگاہِ الہٰی سے یہ مرتبہ وشرف بھی حاصل تھا جیسا کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پچھلی اُمتوں میں کچھ لوگ مُحَدَّث ہوتے تھے، اگر میری امت میں ان میں سے کوئی ہے تو بے شک وہ عمر بن خطاب ہے۔(صحیح بخاری،ج۲،ص۵۲۷، الحدیث:۳۶۸۹)
محدَّث کے مختلف معانی بیان کرتے ہوئے شارحِ صحیحین علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اطال اللہ عمرہ فرماتے ہیں:مفہوم محدَّث کے بارے میں اہل علم کے متعدد اقوال ملتے ہیں ۔بعض نے کہا محدَّث صاحب ِالہام کو کہتے ہیں ۔تورپشتی نے کہا محدث وہ شخص ہے جس کی رائے صائب اور ظن صادق ہو۔ابو احمد عسکری نے کہا،جس کے قلب پر ملاء اعلیٰ کا فیضان ہو اسے محدَّث کہتے ہیں۔بعض نے کہا جس کی زبان ہمیشہ نطق بالصواب کرتی ہو وہ محدَّث ہے۔ ابن التین نے کہا محدَّث صاحبِ فراست ہوتا ہے ۔حضرت عائشہ نے فرمایا:ملہم بالصواب کو محدَّث کہتے ہیں ۔ابن حجر عسقلانی نے ایک مرفوع روایت سے بتایا محدث کی زبان پر ملائکہ کلام کرتے ہیں ،ملاعلی قاری نے کہا:محدَّث سے مراد وہ شخص ہے جو کثرتِ الہام کے سبب درجہ انبیاء سے واصل ہو۔ان تمام اقوال کا حاصل یہ ہے کہ’’ محدَّث کے قلب ونظر پر ملاء اعلی کا فیضان ہوتا ہے ۔اس کا اجتہاد صحیح اور اس کا کلام صائب اور ربانی تائید سے مؤید ہوتا ہے۔(مقالاتِ سعیدی،۲۰۰)
(3)امیر المومنین : ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو خلیفہ رسول اللہ کہاجاتا تھا جبکہ مجھے یہ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں اوراگر یہ کہا جائے ’’خلیفہ خلیفہ رسول اللہ‘‘ تو بات لمبی ہوجائے گی۔اس وقت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم مومنین ہیں تو آپ ہوئے’’ امیر المومنین‘‘۔آپ نے فرمایا:یہ ٹھیک ہے۔(الاستیعاب ، ج۳، ص۲۳۹) جبکہ’’اسدالغابہ ، ج۴، ص۱۸۱‘‘پر مرقوم ہے کہ’’ سب سے پہلے یہ لقب لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہما نے تجویز کیا۔‘‘
مذکورہ القابات کے علاوہ بھی آپ کو ان القابات سے یاد کیا گیا ہے (4)متمم الاربعین(5)اعدل الاصحاب(6)امام العادلین(7)غیظ المنافقین (8)مرادرسول(9)مفتاح الاسلام(10)شہیدالمحراب(11)شیخ الاسلام۔
اورمجدداعظم سیدی اعلی حضرت امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے یہ القابات بھی استعمال فرمائے:(12)اسلام کی عزت(13)اسلام کی شوکت(14)اسلام کی قوت(15)اسلام کی دولت (16)اسلام کے تاج(17)اسلام کی معراج (18) اسلام اور مسلمانوں کی عزت۔ (فتاویٰ رضویہ، ج۲۲، ص۲۴۳۔۴۰۴، ج۱۰، ص۷۶۷، ج۱۵، ص۵۷۵)
اور امیر اہلسنّت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے رسالے ’’کراماتِ فاروق اعظم ‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی )میں آپ رضی اللہ عنہ کے چالیسویں نمبر پر اسلام قبول کرنے کی نسبت سے چالیس القابات ذکرکئے ہیں ۔
٭٭٭٭٭ قرآن کریم اور فاروق اعظم ٭٭٭٭٭
قرآن کریم میں بہت سی آیات طیبہ ہیں جو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئیں اورآپ کی شان وعظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔ (1)آپ نے جب اسلام قبول کیا اور اہل حق کی تعداد چالیس ہوگئی تو سورہ انفال کی آیت ۶۴نازل ہوئی۔(معجم کبیر،ج۱۲، ص۴۷،حدیث:۱۲۴۷۰)(2) ازواجِ مطہرات کے متعلق طلاق کی غلط خبر مشہور ہوئی تو آپ نے بارگاہِ رسالت میں رجوع کیا او ر حقیقتِ حال دریافت کرکے مسجد نبوی میں اس کااعلان کردیا تو سورۂ نساء کی آیت نمبر۸۳نازل ہوئی۔(مسلم ،ص۷۸۴، حدیث:۳۰)(3)سورۂ تحریم کی آیت نمبر۴ میں آپ کو ’’صالح المومنین یعنی نیک ایمان والے‘‘کہا گیا۔ (درمنثور، ج۸، ص۲۲۳)(4)ایک کافر نے آپ کے ساتھ بیہودگی کی تو سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۵۳ میں آپ کو صبر ومعاف فرمانے کی تلقین کی گئی۔ (خازن،ج۳،ص۱۷۷)(5)اسی طرح ایک دوسرے موقع پرسورۂ جاثیہ کی آیت نمبر۱۴میں بھی آپ کو درگزرکرنے کا حکم ہوا۔(الکشف والبیان،ج۸،ص۳۵۹) (6)سورۂ سجدہ کی آیت نمبر۱۸ میں آپ کے ایمان کو بیان کیا گیا۔(زادالمسیر،ج۵،ص۱۱۷)(7)جنگ بدر میں آپ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا توسورۂ مجادلہ کی آیت نمبر۲۲ میں آپ کے دشمنانِ خداورسول سے دوستی نہ کرنے کی گواہی دی گئی۔ (خازن،ج۴،ص۲۴۳)(8)سورہ ٔ ال عمران کی آیت نمبر۱۵۹ میں آپ کے مشیر رسول ہونے کا بیان ہے۔(درمنثور،ج۲،ص۳۵۹)(9) آپ نے بارگاہِ رسالت میں آواز کوانتہائی پست رکھ کراس بارگاہِ عرش نشان کاانتہائی ادب کیا تو سورۂ حجرات کی آیت نمبر ۳ نازل ہوئی اور آپ کے باطنی تقوی کو بیان کیا گیا۔(البحر المحیط،ج۸، ص۱۰۶)اس کے علاوہ بھی آیات مقدسہ ہیں جو آپ کے حق میں نازل ہوئیں،تفصیل کے لئے تفاسیر کی طرف مراجعت کیجئے۔
٭٭٭ قرآنی آیات اور موافقتِ فاروق اعظم ٭٭٭
قرآن کی بعض آیات طیبہ وہ ہیں جوحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوئیں یعنی آپ نے بارگاہِ رسالت میں کوئی رائے پیش کی تو اسی کے مطابق وموافق قرآنی آیت نازل ہوگئی،جیساکہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا:’’قرآن کریم کے بعض احکام حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق ہیں۔‘‘(سیرۃ حلبیۃ،ج۱،ص۴۷۴) قرآن کریم میں ایسی آیات کی تعداد بقول ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ پندرہ ہے اور امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ان کی تعداد سترہ ہے جبکہ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تتبع کرکے ان کا عدد بیس تک پہنچا دیا ہے۔(ماخوذ از مقالاتِ سعیدی، ص۲۰۰) یہاں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
(1)حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی :یارسول اللہ!اگر ہم مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں تو کیسا رہے گا؟تواللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۵ نازل فرما کر مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے کا حکم فرمادیا۔(بخاری، ج۱، ص۱۵۸،الحدیث:۴۰۲)
(2)آپ نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی :آپ کے ہاں نیک وبد ہر قسم کے لوگوں کا آناجانا لگا رہتا ہے لہٰذا ازواجِ مطہرات کو پردے کا حکم دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں سورۂ احزاب کی آیت نمبر۶۹ نازل فرمادی۔(بخاری، ج۳، ص۳۰۴،الحدیث:۴۷۹۰)
(3)اسیرانِ غزوہ بدر کے متعلق آپ نے رائے دی کہ یہ کفر کے سرغنہ اور سرپرست ہیں ،لہٰذا ان کی گردنیں اڑادی جائیں تو اللہ عزوجل نے اسی کے موافق سورۂ انفال کی آیت نمبر۶۷ نازل فرمائی۔(مسلم، ص۹۷۰، حدیث:۱۷۶۳)
(4)تخلیق انسانی کے مراحل پر مشتمل سورہ ٔ مومنون کی آیت ۱۲تا ۱۴ سن کر آپ کے منہ سے نکلا
’’فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘‘تو یہی الفاظ نازل ہوگئے اور حضورنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’اے عمر!اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!یہ آیت تو انہی الفاظ کے ساتھ مکمل ہوئی جوتم نے کہے ۔‘‘ (درمنثور،ج۶،ص۹۲)
٭٭٭ احادیث کریمہ اور فاروق اعظم ٭٭٭
بقول امام نووی علیہ الرحمہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ۵۳۹ احادیث مبارکہ مروی ہیں (تہذیب الاسمائ،ج۲،ص۳۲۵) اوربخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث شریف ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات یعنی اعمال کا مدار نیتوں پر ہے‘‘(صحیح بخاری، ج۱، ص۵،الحدیث:۱) بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔ یہ تو وہ احادیث ہیں جو آپ سے مروی ہیں جبکہ خود آپ کی فضیلت وشان پربے شمار فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں جن میں سے بعض ذکر کئے جاتے ہیں:
(1)…ارشاد فرمایا:’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔‘‘(سنن ترمذی ، ج۵، ص۳۸۵، حدیث:۳۸۰۶)
(2)…ارشاد فرمایا:’’عمر سے بہتر کسی انسان پر آج تک سورج طلوع نہیں ہوا۔‘‘(سنن ترمذی ، ج۵، ص۳۸۴،الحدیث:۳۷۰۴)
(3)…ارشاد فرمایا:’’جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے عمر سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘(الشفا،ج۲،ص۵۴)
(4)…ارشاد فرمایا:’’ اللہ عزوجل عمر پر رحم فرمائے کہ وہ حق ہی کہتے ہیں اگرچہ کڑوا ہو۔‘‘(سنن ترمذی ، ج۵، ص۳۹۸،الحدیث:۳۷۳۴)
(5)…ارشاد فرمایا:’’اے عمر! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں،میرے بعد حق تمہارے ساتھ ہوگا۔‘‘( ریاض النضرۃ ،ج۲، ص۲۹۸)
(6)…ارشاد فرمایا:’’اے عمر !جس راستے پر تم چلتے ہوشیطان اس راستے کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری، ج۲، ص۵۲۶، الحدیث:۳۶۸۳)
(7)…ارشاد فرمایا:’’جس سے عمر ناراض ہوجائے اس سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘(جمع الجوامع،ج۱،ص۸۳، الحدیث:۴۳۴)
ـــــ جاری ہے ــــ
پڑھ کر دوسروں تک شیئر بھی کر دیں تاکہ آپ کی وجہ سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔
جزاک اللہ