top of page


انوار الانتباہ فی حلنداء یا رسول اللہ

 

 

 

 

یا رسول اللہ کہنے کے جواز کے بارے میں نورانی تنبیہیں

 

 

 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

 

 

 

 

 

مسئلہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید موحّد مسلمان جوخدا کو خدا اور رسول کو رسول جانتا ہے، نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہ کلمۂ یا نداکرتا اور اَلصّلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ یا اسئلک الشفاعَۃَ یا رسول اللہ کہا کرتا ہے، یہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟اور جو لوگ اسے اس کلمے کی وجہ سے کافر و مشرک کہیں اُن کا کیا حکم ہے؟ بیّنوابالکتاب توجروا یوم الحساب (کتاب سے بیان فرمائیے روزِ حساب اجر دیے جاؤ گے۔ ت)

 

الجواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط

الحمد للہ وکفی والصلوٰۃ والسلام علٰی حبیبہ المصطفٰی واٰلہواصحابہ اُولی الصدق والصّفا۔

کلماتِ مذکورہ بے شک جائز ہیں جن کے جواز میں کلام نہ کرے گا مگرسفید جاہل یا ضال مضل، جسے اس مسئلے کے متعلق قدرے تفصیل دیکھنی ہو شفاء السقامامام علامہ بقیۃ المجتہدین الکرام تقی الملۃ والدّین ابو الحسن علی سبکی و مواہباللدنیۃ امام احمد قسطلانی شارح صحیح بخاری و شرح مواہب علامہ زرقانی و مطالعالمسرات علامہ فاسی و مرقاۃ شرح مشکوٰۃ علامہ علی قاری و لمعات و اشعۃ اللمعاتشروح مشکوٰۃ وجذب القلوب الیٰ دیار المحبوب و مدارج النبوۃ تصانیف شیخ عبد الحقمحدث دہلوی و افضل القریٰ شرح اُمّ القریٰ امام ابن حجر مکی وغیر ہا کتب و کلامعلماے کرام و فضلاے عظام علیہم رحمۃ اللہ العلام کی طرف رجوع لائے یا فقیر کارسالہ الاھلال بفیض الاولیاء بعد الوصال مطالعہ کرے۔

یہاں فقیر بہ قدرِ ضرورت چند کلمات اجمالی لکھتا ہے، حدیث صحیحمذیّل بطراز گر انہائے تصحیح ہے جسے امام نسائی و امام ترمذی و ابنِ ماجہ و حاکم وبیہقی و امام الائمہ ابن خزیمہ و امام ابو القاسم طبرانی نے حضرت عثمان بن حنیفرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا اور ترمذی نے حسن غریب صحیح اور طبرانی و بیہقینے صحیح اور حاکم نے بر شرطِ بخاری و مسلم جس میں حضورِ اقدس سیّد عالم صلی اللہتعالیٰ علیہ وسلم نے ایک نابینا کو دُعا تعلیم فرمائی کہ بعدِ نماز یُوں کہے:

اللھم انی اسئلک واتوجّہ الیک بنبیک محمدٍ نبی الرحمۃ یا محمد انیاتوجہ بک الٰی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضٰی لی اللھم فشفعہ فِیَّ۔[1]

اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں بہ وسیلہتیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ مہربانی کے نبی ہیں، یا رسول اللہ! میںحضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں کہ میری حاجت روا ہو۔الٰہی ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔

امام طبرانی کی معجم میں یوں ہے:

انّ رجلاً کان یَختَلِفُ الیٰ عثمان بن عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہفی حاجۃٍ لہ وکان عثمان لا یلتفت الیہ ولاینظر فی حاجتہ فلقی عثمان بن حنیف رضیاللہ تعالیٰ عنہ فشکیٰ ذٰلک الیہ فقال لہ عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِئتِالمیضاءۃ فتوضّأ ثم ائت المسجد فصلّ فیہ رکعتین ثم قل اللّٰھمّ اِنّی اسئلکواتوجّہ الیک بنینا نبی الرحمتہ یا محمد انّی اتوجّہ بک الیٰ ربّی فیقضی حاجتی،وتذکر حاجَتَک ورُحْ الیّ حتّٰی اَرُوْحَ معک۔ فانطلق الرجل فصنع ما قال لہ ثمّاتیٰ بابَ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجاء البوّابُ حتی اخذہ بیدہ فادخلہ علیٰعثمان بن عفان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فأجلسہ معہ علی الطّنفسۃ وقال حاجتک؟ فذکرحاجتہ فقضا ھالہ ثمّ قال ما ذکرت حاجتک حتی کانت ھذہ الساعۃ وقال ماکان لک منحاجۃٍ فاْتنا، ثمّ انّ الرجل خرج من عندہ فلقی عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہفقال لہ جزاک اللہ خیرا ماکان ینظر فی حاجتی ولا یلتفت الیّ حتّٰی کلّمتہ فیّ فقالعثمٰن بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ واللہ ماکلّمتہ ولٰکن شھدت رسول اللہ صلی اللہتعالیٰ علیہ وسلم واتاہ رجل ضریرٌ فشکا الیہ ذھاب بصرہ فقال لہ النبی صلی اللہتعالیٰ علیہ وسلم ائت المیضاۃ فتوضّأ ثمّ صل رکعتین ثم ادع بھٰذہ الدعوات فقالعثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فو اللہ ما تفرقنا وطال بنالحدیث حتّی دخلعلینا الرجل کانہ لم یکن بہ ضرٌّ قط۔[2]

یعنی ایک حاجتمند اپنی حاجت کے لیے امیرالمومنین عثمان غنی رضیاللہ عنہ کی خدمت میں آتا جاتا، امیر المومنین نہ اس کی طرف التفات فرماتے نہ اسکی حاجت پر نظر فرماتے، اس نے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے اس امر کی شکایت کی،انھوں نے فرمایا وضو کرکے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر پھر دُعا مانگ: ”الٰہی!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلےسے توجہ کرتا ہوں، یا رسول اللہ! میں حضور کے توسّل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتاہوں کہ میری حاجت روا فرمائے۔“ اور اپنی حاجت ذکر کر، پھر شام کو میرے پاس آنا کہمیں بھی تیرے ساتھ چلوں۔ حاجتمند نے (کہ وہ بھی صحابی یا لَا اقَلّ کبار تابعینمیں سے تھے) یُوں ہی کیا، پھر آستانِ خلافت پر حاضر ہوئے، دربان آیا اور ہاتھ پکڑکر امیر المؤمنین کے حضور لے گیا، امیر المومنین نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا،مطلب پُوچھا، عرض کیا، فوراً روا فرمایا، اور ارشاد کیا اتنے دنوں میں اس وقت اپنامطلب بیان کیا، پھر فرمایا: جو حاجت تمہیں پیش آیا کرے ہمارے پاس چلے آیا کرو۔ یہصاحب وہاں سے نکل کر عثمان بن حنیف سے ملے اور کہا اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دےامیر المؤمنین میری حاجت پر نظر اور میری طرف توجہ نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نےان سے میری سفارش کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم!میں نے تو تمھارے معاملے میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہوا یہ کہ میںنے سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا حضور کی خدمتِ اقدس میں ایکنابینا حاضر ہوا اور نابینائی کی شکایت کی حضور نے یونہی اس سے ارشاد فرمایا کہوضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے پھر یہ دُعا کرے، حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہوارضاہ نے فرمایا خدا کی قسم ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہہمارے پاس آیا گویا کبھی وہ اندھا نہ تھا۔

امام طبرانی پھر امام منذری فرماتے ہیں والحدیث صحیح[3]۔ امامبخاری کتاب* الادب المفرد میں اور امام ابن السنی وامام ابن بشکوال روایت کرتےہیں:

انّ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما خدرت رجلہ فقیل لہ اذکر احبالناس الیک فصاح یا محمداہ فانتشرت۔ [4]

یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا پاؤں سو گیا،کسی نے کہا انھیں یاد کیجیے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت نے بہ آوازِبلند کہا یا محمداہ! فورًا پاؤں کھل گیا۔

امام نووی شارح صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذکار میں اسکی مثل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بنعباس رضی اللہ عنہماکے پاس کسی آدمی کا پاؤں سو گیا تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہعنہمانے فرمایا: تُو اُس شخص کو یاد کر جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تو اس نے یامحمداہ کہا، اچھا ہوگیا۔[5] اور یہ امر اِن دو صحابیوں کے سوا اوروں سے بھی مرویہوا۔ اہلِ مدینہ میں قدیم سے اس یا محمداہ کہنے کی عادت چلی آتی ہے۔

علامہ شہاب خفاجی مصری نسیم الریاض شرحِ شفا امام قاضی عیاض میںفرماتے ہیں:

ھٰذا مما تعاھدہ اھل المدینۃ۔ [6]

یہ اہل مدینہ کے معمولات میں سے ہے۔ (ت)

حضرت بلال بن الحارث مُزَن سے قحطِ عام الرمادہ میں کہ بعد خلافتِفاروقی 18ھ میں واقع ہوا، ان کی قوم بنی مزینہ نے درخواست کی کہ ہم مرے جاتے ہیںکوئی بکری ذبح کیجیے، فرمایا بکریوں میں کچھ نہیں رہا ہے۔ انھوں نے اصرار کیا، آخرذبح کی، کھال کھینچی تو نِری سُرخ ہڈی نکلی۔ یہ دیکھ کر بلال رضی اللہ عنہ نے نداکی:یا محمداہ۔ پھر حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں تشریف لاکربشارت دی۔ ذکرہ فی الکامل[7] (اس کو کامل میں ذکر کیا گیا۔ت)

امامِ مجتہد فقیہِ اجل عبد الرحمن ہُذلی کو فی مسعودی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے اور اجلّۂ تبعِ تابعین و اکابر ائمۂِ مجتہدینسے ہیں سَر پر بلند ٹوپی رکھتے جس میں لکھا تھا:

مُحَمّدٌ یا منصورُ۔ اور ظاہر ہے کہ اَلْقَلَمُ اَحَدُاللِّسَانَیْنِ (قلم دو زبانوں میں سے ایک ہے۔ت) ہیثم بن جمیل انطا کی کہ ثقاتعلماے محدثین سے ہیں اِنھیں امامِ اجل کی نسبت فرماتے ہیں:

رایتہ وعلیٰ رأسہ قلنسوتہ اَطْوَلُ مِن ذراع مکتوب فیھا محمد یامنصور۔ذکرہ فی تھزیب التھذیب وغیرہ۔ [8]

میں نے اُن کو دیکھا ان کے سر پر ہاتھ بھر سے لمبی ٹوپی تھی جس میںلکھا ہوا تھا محمدٌ یا منصور۔ اس کو تہذیب التہذیب وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

امام شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوٰی میں ہے:

سُئِل عمّا یقع من العامۃِ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان ونحوذٰلک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اِغاثۃ بعد موتھم املا؟ فاجاب بما نَصّہ اَنّ الاستغاثۃ بالانبیاء و المرسلین والاولیاء والعلماءالصّالحین جائزۃ وللانبیاء وللرّسل والاولیاء والصالحینِ اغاثۃ بعد موتھم الخ۔ [9]

یعنی ان سے استفتا ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیا و مرسلینواولیا و صالحین سے فریاد کرتے اور یا شیخ فلاں (یارسول اللہ، یاعلی، یاشیخ عبدالقادر جیلانی) اور ان کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور اولیا بعدانتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ بیشک انبیا و مرسلینو اولیا و علما سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیںالخ۔

 

علامہ خیر الدین رملی اُستاذ صاحبِ دُرِ مُختار، فتاوٰی خیریہ میںفرماتے ہیں:

قولھم یا شیخ عبد القادر فھو نداء فما الموجب لحرمتہ۔ [10]

لوگوں کا کہنا کہ ”یا شیخ عبد القادر“یہ ایک ندا ہے پھر اس کیحُرمت کا سبب کیا ہے۔

سیدی جمال بن عبد اللہ بن عمر مکی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں:

سئلت ممن یقول فی حال الشد ائد یا رسول اللہ اویا علی او یا شیخعبد القادر مثلاً ھل ھو جائز شرعًا ام لا؟ اجبت نعم الاستغاثۃ بالاولیاء ونداؤھموالتوسل بھم امرٌ مشروع وشیء مرغوب لَایُنْکِرُہ الا مُکابِرٌ اَوْ مُعَانِدٌوَقَدْ حَرُمَ بَرَکَۃَ الْاَوْلِیَاءِ الْکِرَامِ الخ۔ [11]

یعنی مجھ سے سوال ہو ا اس شخص کے بارے میں جو مصیبت کے وقت میںکہتا ہو یارسول اللہ یا یا علی یا یاشیخ عبد القادر، مثلاً، آیا یہ شرعاً جائز ہےیا نہیں؟ میں نے جواب دیا: ہاں اولیا سے مدد مانگنی اور انھیں پکارنا اور ان کےساتھ توسّل کرنا شرع میں جائز اور پسندیدہ چیز ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹدھرم یا صاحبِ عناد، اور بیشک وہ اولیاے کرام کی برکت سے محروم ہے۔

امام ابنِ جوزی نے کتاب عیون الحکایات میں تین اولیاے عظام کا عظیمالشان واقعہ بہ سندِ مسلسل روایت کیا کہ وہ تین بھائی سوارانِ دلاور ساکنانِ شامتھے کہ ہمیشہ راہِ خدا میں جہاد کرتے،

فاسرہ الروم مرّۃ قال لھم الملک انی اجعل فیکم الملک وازوّجکمبناتی وتدخلون فی النصرانیّۃ فاَبَوْا وقالوا یا مُحَمَّدَاہُ۔ [12]

یعنی ایک بار نصاریٰ روم انھیں قید کرکے لے گئے بادشاہ نے کہا میںتمھیں سلطنت دوں گا اور اپنی بیٹیاں تمھیں بیاہ دوں گا تم نصرانی ہوجاؤ۔ انھوں نےنہ مانا اور ندا کی یا محمداہ۔

بادشاہ نے دیگوں میں تیل گرم کراکر دو صاحبوں کو اس میں ڈال دیا،تیسرے کو اللہ تعالیٰ نے ایک سبب پیدا فرماکر بچا لیا۔ وہ دونوں چھ مہینے کے بعدمع ایک جماعتِ ملائکہ کے بیداری میں ان کے پاس آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نےتمھاری شادی میں شریک ہونے کوبھیجا ہے انھوں نے حال پوچھا، فرمایا:

ماکانت الّا الغطسۃ التی رأیت حتی خرجنا فی الفردوس۔

بس وہی تیل کا ایک غوطہ تھا جو تم نے دیکھا اس کے بعد ہم جنّتِاعلیٰ میں تھے۔

 

امام فرماتے ہیں:

کانا مشھورین بذلک معروفین بالشام فی الزمن الاوّل۔

یہ حضرات زمانۂ سلف میں مشہور تھے اور ان کا یہ واقعہ معروف۔

پھر فرمایا: شعرا نے ان کی منقبت میں قصیدے لکھے، از اں جملہ یہبیت ہے:

 

سیعطی الصادقین بفضل صدقٍ

نجاۃ فی الحیٰوۃِ وفی الممات [13]

’’قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے ایمان والوں کو اُن کے سچ کی برکت سےحیات و موت میں نجات بخشے گا‘‘

یہ واقعہ عجیب نفیس و روح پرور ہے۔ میں بہ خیالِ تطویل اسے مختصرکرگیا۔ تمام وکمال امام جلال الدین سیوطی کی شرح الصدور میں ہے من شاء فلیرجعالیہ(جو تفصیل چاہتا ہے اس کی طرف رجوع کرے۔ ت) یہاں مقصود اس قدر ہے کہ مصیبت میں”یا رسول اللہ “ کہنا اگر شرک ہے تو مشرک کی مغفرت و شہادت کیسی اور جنت الفردوسمیں جگہ پائی کیا معنیٰ، اور ان کی شادی میں فرشتوں کو بھیجنا کیونکر معقول؟ اوران ائمۂ دیں نے یہ روایت کیونکر مقبول اور ان کی شہادت و ولایت کس وجہ سے مسلّمرکھی اور وہ مردانِ خدا خود بھی سلفِ صالح میں تھے کہ واقعہ شہر طرطوس کی آبادی سےپہلے کا ہے کماذکرہ فی الرّوایۃ نفسھا (جیسا کہ خود روایت میں ذکر کیا ہے۔ت) اورطرطوس ایک ثغر ہے یعنی دارالاسلام کی سرحد کا شہر جسے خلیفہ ہارون رشید نے آبادکیا کما ذکرہ الامام السیوطی[14] فی تاریخ الخلفاء (جیسا کہ امام جلال الدین سیوطیرحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں اس کو ذکر کیا ہے۔ت)

ہارون رشید کا زمانہ زمانۂ تابعین و تبع تابعین تھا تو یہ تینوںشہداے کرام اگر تابعی نہ تھے لا اقل تبع تابعین سے تھے واللہ الھادی (اور اللہ ہیہدایت دینے والا ہے۔ت)

حضور پُر نور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:

من استغاث بی فی کربۃٍ کشفت عنہ ومن نادی باسمی فی شدۃ فرجت عنہومن توسل بی الی اللہ عزوجل فی حاجۃٍ قضیت لہ ومن صلی رکعتین یقرؤ فی کل رکعۃٍ بعدالفاتحۃ سورۃ الاخلاص اِحْدٰی عشرۃ مرَّۃ ثم یصلی علی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰیعلیہ وسلم بعد السلام ویسلم علیہ ویذکر نی ثم یخطوا الی جہۃ العراق احدٰی عشرۃخطوۃ یذکرھا اسمی ویذکر حاجتہ فانھا تقضٰی باذن اللہ۔ [15]

یعنی جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے وہ تکلیف دفع ہو اور جوکسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دُور ہو اور جو کسی حاجت میں اللہتعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے وہ حاجت بر آئے۔ اور جو دو رکعت نماز ادا کرے ہررکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام پھیر کر نبی صلی اللہتعالیٰ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق شریف کی طرفگیارہ قدم چلے ان میں میرا نام لیتا جائے اور اپنی حاجت یاد کرے اس کی وہ حاجت رواہو اللہ کے اذن سے۔

اکابر علماے کرام و اولیاے عظّام مثل امام ابو الحسن نور الدین علیبن جریر لخمی شطنوفی و امام عبد اللہ بن اسد یافعی مکّی، مولانا علی قاری مکیصاحبِ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، مولانا ابو المعالی محمد سلمیٰ قادری و شیخِ محقق مولاناعبدالحق محدث دہلوی وغیرہم رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصانیفِ جلیلہ بہجۃ الاسرار وخلاصۃالمفاخر و نزہۃ الخاطر و تحفہ قادریہ وزبدۃ الآثار وغیرہا میں یہ کلمات رحمت آیاتحضور غوث پاک رضی اللہ عنہ سے نقل و روایت فرماتے ہیں۔

یہ امام ابوالحسن نورالدین علی مصنف بہجۃ الاسرار شریف اعاظمِ علماو ائمۃ قراء ت و اکابر اولیا و ساداتِ طریقت سے ہیں، حضور غوث الثقلین رضی اللہعنہ تک صرف دو واسطے رکھتے ہیں امامِ اجل حضرت ابو صالح نصر قدس سرہ سے فیض حاصلکیا انھوں نے اپنے والد ماجد حضرت ابو بکر تاج الدین عبد الرزاق نور اللہ مرقدہ سےاُنھوں نے اپنے والد ماجد حضور پُر نور سید السادات غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہسے۔

شیخ محقق رحمۃ اللہ علیہ زبدۃ الآثار شریف میں فرماتے ہیں:

یہ کتاب بہجۃ الاسرار کتاب عظیم و شریف و مشہور ہے اور اس کے مصنفعلماے قراء ت سے عالم معروف و مشہور اور ان کے احوال* شریفہ کتابوں میں مذکور ومسطور۔ [16]

امام شمس الدین ذہبی کہ علمِ حدیث و اسماء الرجال میں جن کی جلالتِشان عالم آشکار اس جناب کی مجلسِ درس میں حاضر ہوئے اور اپنی کتاب طبقات المقرئینمیں ان کے مدائح لکھے۔

امام محدّث محمد بن محمد بن محمد بن الجزری مصنفِ حصنِ حصین اسجناب کے سلسلۂ تلامذہ میں ہیں اُنھوں نے یہ کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف اپنےشیخ سے پڑھی اور اس کی سند و اجازت حاصل کی۔ [17]

ان سب باتوں کی تفصیل اور اس کی نمازِ مبارک کا دلائل شرعیہ واقوال و افعالِ علما و اولیا سے ثبوتِ جلیل فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہ کے رسالہانھار الانوار من یم صلوٰۃ الاسرار میں ہے:

فعلیک بما تجد فیھا ما یشفی الصدور ویکشف العمٰی والحمد للہ ربالعٰلمین۔

اس رسالے کا مطالعہ تجھ پر لازم ہے اس میں تو وہ کچھ پائے گا جودلوں کو شفا دیتا ہے اور اندھے پن کو دُور کرتا ہے اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کےلیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے (ت)

امام عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتابمستطاب ”لواقح الانوار فی طبقات الاخیار“ میں فرماتے ہیں:

سیدی محمد غمری رضی اللہ عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتےتھے، ان کے جانور کا پاؤں پھسلا، بآواز پکارا یا سیدی محمد یا غمری، اُدھر ابنِعمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے، ابن عمر نے فقیر کا نداکرنا سُنا، پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں؟ کہا میرے شیخ۔ کہا میں ذلیل بھی کہتا ہوںیا سیدی یا غمری لاحظنی اے میرے سردار اے محمد غمری! مجھ پر نظرِ عنایت کرو۔ ان کایہ کہنا تھا کہ حضرت سیدی محمد غمری رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہبادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی، مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصتکیا۔ [18]

اسی میں ہے:

سیدی شمس الدین محمد حنفی رضی اللہ عنہ اپنے حجرۂ خلوت میں وضوفرمارہے تھے ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کہ غائب ہوگئی حالانکہ حجرے میں کوئیراہ اس کے ہوا پر جانے کی نہ تھی، دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسےاپنے پاس رہنے دے جب تک وہ پہلی واپس آئے، ایک مدت کے بعد ملکِ شام سے ایک شخص وہکھڑاؤں مع اور ہدایا کے حاضر لایا اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو جزاے خیر دےجب چور میرے سینے پر مجھے ذبح کرنے بیٹھا میں نے اپنے دل میں کہا یا سیدی محمد یاحنفی، اُسی وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آکر اس کے سینے پر لگی کہ غش کھا کر الٹا ہوگیااور مجھے بہ برکتِ حضرت اللہ عزوجل نے نجات بخشی۔ [19]

اسی میں ہے: ولیِ ممدوح قدس سرہ کی زوجۂ مقدسہ بیماری سے قریب مرگہوئیں تو وہ یوں ندا کرتی تھیں یا سیدی اَحْمَدُ یَا بَدْوِیُّ خَاطِرُکَ مَعِیْ اے میرے سردار اے احمد بدوی! حضرت کی توجہ میرے ساتھ ہے۔ ایک دن حضرت سیدی احمدکبیر بدوی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں: کب تک مجھے پکارے گی اورمجھ سے فریاد کرے گی، تو جانتی نہیں کہ تو ایک بڑے صاحبِ تمکین (یعنی اپنے شوہر)کی حمایت میں ہے، اور جو کسی ولیِ کبیر کی درگاہ میں ہوتا ہے ہم اس کی ندا پراجابت نہیں کرتے، یوں کہہ یا سیدی محمد یا حنفی، کہ یہ کہے گی تو اللہ تعالیٰ تجھےعافیت بخشے گا۔ ان بی بی نے یونہی کہا، صبح کو خاصی تندرست اُٹھیں، گویا کبھی مرضنہ تھا۔ [20]

اسی میں ہے حضرت ممدوح رضی اللہ عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے:

من کانت لہ حاجۃ فلیأت الیٰ قبری ویطلب حاجتہ اقضہا لہ فان ما بینیوبینکم غیر ذراع من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحبہ ذراع من تراب فلیس برجل۔ [21]

جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوافرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنیمٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کر دے وہ مرد کا ہے کا۔

اسی طرح حضرت سیّدی محمد بن احمد فرغل رضی اللہ عنہ کے احوال شریفہمیں لکھا:

کان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقول انا من المتصرفین فی قبورھم فمن کانتلہ حاجۃ فلیأت الیٰ قبالۃ وجھی ویذکرھا لی اقضھا لہ۔ [22]

فرمایا کرتے تھے میں اُن میں ہوں جو اپنی قبور میں تصرف فرماتے ہیںجسے کوئی حاجت ہو میرے پاس میرے چہرۂ مبارک کے سامنے حاضر ہو کر مجھ سے اپنی حاجتکہے میں روا فرمادوں گا۔

اسی میں ہے:

مروی ہوا ایک بار حضرت سیدی مدین بن احمد اشمونی رضی اللہ عنہ نےوضو فرماتے میں ایک کھڑاؤں بلادِ مشرق کی طرف پھینکی، سال بھر کے بعد ایک شخص حاضرہوئے اور وہ کھڑاؤں اُن کے پاس تھی انہوں نے حال عرض کیا کہ جنگل میں ایک بد وضعنے ان کی صاحبزادی پر دست درازی چاہی، لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیر و مرشد حضرتسیدی مدین کا نام معلوم نہ تھا یوں ندا کی یَا شَیْخُ اَبِیْ لَاحِظْنِیْ اے میرےباپ کے پیر مجھے بچائیے۔ یہ ندا کرتے ہی وہ کھڑاؤں آئی لڑکی نے نجات پائی، وہکھڑاؤں اُن کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ [23]

اسی میں سیدی موسیٰ ابو عمران رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر میں لکھتےہیں:

کان اذا ناداہ مریدہ اجابہ من مسیرۃ سنۃٍ اواکثر۔ [24]

جب ان کا مرید جہاں کہیں سے انھیں ندا کرتا جواب دیتے اگرچہ سالبھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے بھی زائد۔

 

 

حضرت شیخِ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی ”اخبار الاخیار“ شریفمیں ذکرِ مبارک حضرت سید اجل شیخ بہاء الحق والدین بن ابراہیم وعطاء اللہ الانصاریالقادری الشطاری الحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حضرت ممدوح کے رسالۂ مبارکہ’’شطاریہ“ سے نقل فرماتے ہیں:

ذکرِ کشفِ ارواح یا احمد یا محمد در دو طریق ست، یک طریق آنست یااحمد را در راستا بگوید و یا محمد را در چپا بگوید و دردل ضرب کند یا رسول اللہ۔طریق دوم آنست کہ یا احمد را در راستا گوید وچپا یا محمد و دردل وہم کند یامصطفےٰ۔ دیگر ذکریا احمد یا محمد یا علی یا حسن یا حسین یا فاطمہ شش طرفی ذکر کندکشف جمیع ارواح شود دیگر اسمائے ملائکہ مقرب ہمیں تاثیر دارند یا جبریل، یامیکائیل، یا اسرافیل، یا عزرائیل، چہار ضربی، دیگر ذکر اسمِ شیخ یعنی بگوید یا شیخیا شیخ ہزار بار بگوید کہ حرفِ ندا را ازدل بکشد طرف راستا برد و لفظِ شیخ را دردل ضرب کند۔ [25]

کشف ارواح کے ذکر یا احمد و یا محمد میں دو طریقے ہیں: پہلا طریقہیہ ہے کہ یا احمد دائیں طرف اور یا محمد بائیں طرف سے کہتے ہوئے دل پر یا رسولاللہ کی ضرب لگائے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یا احمد دائیں طرف اور یا محمد بائیں طرفسے کہتے ہوئے دل میں یا مصطفیٰ کا خیال جمائے۔ اس کے علاوہ دیگر اذکار یا محمد، یااحمد، یا علی، یا حسن، یا حسین، یا فاطمہ کا چھ طرفی ذکر کرنے سے تمام ارواح کاکشف حاصل ہوجاتا ہے۔ مقرب فرشتوں کے ناموں کا ذکر بھی تاثیر رکھتا ہے، یا جبرائیل،یا میکائیل، یا اسرافیل، یا عزرائیل کا چار ضربی ذکر کرے۔ نیز اسمِ شیخ کا ذکرکرتے ہوئے یا شیخ یا شیخ ہزار بار اس طرح کرے کہ حرفِ ندا کو دل سے کھینچتے ہوئےدائیں طرف لے جائے اور لفظِ شیخ سے دل پر ضرب لگائے۔ (ت)

حضرت سیّدی نورالدین عبدالرحمن مولانا جامی قدس سرہ السامی نفحاتالانس شریف میں حضرت مولوی معنوی قدس سرہ العلی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ مولاناروّح اللہ روحہ نے قریبِ انتقال ارشاد فرمایا:

ازرفتنِ من غمناک مشوید کہ نور منصور رحمۃ اللہ علیہ بعد از صدوپنجاہ سال بر روحِ شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تجلی کردو مرشد او شد۔ [26]

ہمارے جانے سے غمگین مت ہوں کہ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ کا نورایک سو پچاس سال بعد شیخ فریدالدین عطار کی روح پر تجلی کرتے ہوئے اُن کا مرشدہوگیا۔ (ت)

اور فرمایا:

درہر حالتے کہ باشید مرا یاد کنید تامن شمارا ممد باشم در ہر لباسےکہ باشم۔ [27]

تم جس حالت میں رہو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہارا مددگار بنوں میںچاہے جس لباس میں ہوں۔ (ت)

اور فرمایا:

در عالم ما را دو تعلق ست، یکے بہ بدن ویکے بشما، وچوں بہ عنایتِحق سبحانہ وتعالیٰ فرو و مجرد شوم و عالم تجرید و تفرید روئے نماید آں تعلق نیز ازآں شما خواہد بود۔ [28]

دُنیا میں ہمارے دو تعلق ہیں، ایک بدن کے ساتھ اور دوسرا تمہارےساتھ۔ جب حق تعالیٰ کی عنایت سے میں فرد مجرد ہوجاؤں گا اور عالمِ تفرید و تجریدظاہر ہوجائے گا تو یہ تعلق بھی تمہارے لیے ہوگا۔(ت)

شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم میںلکھتے ہیں:

 

وصلٰی علیک اللہ یا خیر خلقہ

ویا خیر مامُول و یا خیرَ واھب

ویا خیر من یرجٰی لکشف رَزیۃ

ومن جودہ قد فاق جود السحائب

وانت مجیری من ھجوم مُلِمَّۃٍ

اذا انشبت فی القلب شر المخالبٖ[29]

اور خود اس کی شرح و ترجمہ میں کہتے ہیں:

(فصل یاز دہم در ابتہال بجناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) رحمتفرستد بر تو خدائے تعالیٰ اے بہترینِ خلقِ خدا، واے بہترین کسیکہ امید داشتہ شود،اے بہترین عطا کنندہ واے بہترین کسیکہ امید داشتہ باشد برائے ازالہۂمصیبتے والےبہترین کسیکہ سخاواتِ اور زیادہ است از باراں، بارہا گواہی میدہم کہ تو پناہ دہندۂمنی از ہجوم کردن مصبتے وقتے کہ بخلا ند دردل بدترین چنگا لہارا۔ [30] اھ ملخصاً

(گیارھویں فصل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں عاجزانہفریاد کے بارے میں) اے خلقِ خداسے بہتر! آپ پر اللہ تعالیٰ درود بھیجے۔ اے بہترینشخص جس سے امید کی جاتی ہے اور اے بہترین عطا کرنے والے۔ اے بہترین شخص کہ مصیبتکو دُور کرنے میں جس سے اُمید رکھی جاتی ہے اور جس کی سخاوت بارش پر فوقیت رکھتیہے۔ آپ ہی مجھے مصیبتوں کے ہجوم سے پناہ دینے والے ہیں جب وہ میرے دل میں بدترینپنجے گاڑتی ہیں۔ (ت)

 

اسی کے شروع میں لکھتے ہیں:

ذکر بعد حوادثِ زماں کہ دراں حوادث لا بدست از استمداد بروحِآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔ [31]

بعض حوادثِ زمانہ کا ذکر جن حوادث میں حضور انور صلی اللہ علیہوسلم کی روحِ اقدس سے مدد طلب کرنا ضروری ہے۔(ت)

 

اسی کی فصلِ اوّل میں لکھتے ہیں:

بہ نظر نمی آید مرا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جائے دست زدناندوہگین ست در ہر شد تے۔ [32]

مجھے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نظر نہیں آتاکیونکہ ہر سختی میں غمزدوں کی پناہ گاہ آپ ہی ہیں۔(ت)

یہی شاہ صاحب قصیدہ”مدحیہ حمزیہ“ میں لکھتے ہیں:

 

ینادی ضارعاً لخضوع قلبٍ

وذل وابتھال والتجاء

رسول اللہ یا خیر البرایا

نوالک ابتغی یوم القضاء

اذا ما حل ّ خطب مد لھم

فانت الحصن من کل البلاء

الیک توجّھی وبک استنادیٰ

وفیک مطامعی وبک ارتجائی[33]

اور خود ہی اس کی شرح و ترجمہ میں لکھتے ہیں:

فصلِ ششم در مخاطبۂ جناب عالی علیہ افضل الصلوات واکمل التحیاتوالتسلیمات ندا کند زار و خوار شدہ بشکستگی دل و اظہارِ بے قدری خود بہ اخلاص درمناجات و بہ پناہ گرفتن بایں طریق کہ اے رسولِ خدا، اے بہترین ِ مخلوقات عطائے مےخواہم روز فیصل کردن، وقتے کہ فرود آید کارِ عظیم درغایتِ تاریکی، پس توئی پناہ ازہر بلا، بسوئے تست رُو آوردنِ من و بہ تست پناہ گرفتنِ من و در تست امید داشتنِ من[34] اھ ملخصاً۔

چھٹی فصل عالی مرتبت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کےبیان میں۔ آپ پر بہترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ ذلیل و خوار شخص شکستہ دل،ذلت و رسوائی، عجز و انکسار کے ساتھ پناہ طلب کرتے ہوئے یوں پکارتا ہے: اے اللہتعالیٰ کے رسول، اے بہترینِ خلق! میں فیصلے کے دن آپ کی عطا کا طلب گار ہوں۔ جبانتہائی اندھیرے میں بہت بڑی مصیبت نازل ہو تو ہر بلامیں پناہ گاہ تو ہی ہے۔ میریتوجہ تیری طرف ہے، تجھ ہی سے میں پناہ لیتا ہوں، تجھ ہی سے طمع و امید رکھتا ہوںاھ ملخصاً (ت)

یہی شاہ صاحب ”انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ“ میں قضاے حاجت کے لیےایک ختم کی ترکیب یوں نقل کرتے ہیں:

اول دو رکعت نفل، بعد ازاں یک صدو یاز دہ بار درود و بعد ازاں یکصدو یاز دہ بار کلمۂ تمجید و یک صدو یا زدہ بار شیئًا لِلہِ یَا شَیْخُ عَبْدَالْقَادِرِ جِیْلَانِیْ۔ [35]

پہلے دو رکعت پڑھے پھر ایک سو گیارہ بار درود شریف، ایک سو گیارہبار کلمۂ تمجید، پھر ایک سو گیارہ بار یہ پڑھے: اے شیخ عبدالقادر جیلانی! خداراکچھ عطا فرمائیں۔ (ت)

اسی انتباہ سے ثابت ہے کہ یہی شاہ صاحب اور اُن کے شیخ و استاذِحدیث مولانا طاہر مدنی جن کی خدمت میں مدتوں رہ کر شاہ صاحب نے حدیث پڑھی اور انکے شیخ و استاذ و والد مولانا ابراہیم کُردی اور اُن کے استاذ مولانا احمد قشاشیاور ان کے استاذ مولانا احمد شناوی اور شاہ صاحب کے استاذ الاستاذ مولانا احمدنخلی کہ یہ چاروں حضرات بھی شاہ صاحب کے اکثر سلاسلِ حدیث میں د اخل اور شاہ صاحبکے پیر و مرشد شیخ محمد سعید لاہوری جنھیں انتباہ میں ”شیخ معمر ثقہ“ کہا اوراعیانِ مشائخِ طریقت سے گِنا اور اُن کے پیر شیخ محمد اشرف لاہوری اور ان کے شیخمولانا عبد المالک اور ان کے مرشد شیخ بایزید ثانی اور شیخ شناوی کے پیر حضرت سیدصبغۃ اللہ بروجی اوران دو صاحبوں کے پیرو مرشد مولانا وجیہ الدین علوی شارح ہدایہو شرح وقایہ اور ان کے شیخ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری علیہم رحمۃ الملک الباری،یہ سب اکابر نادِ علی کی سندیں لیتے اور اپنے تلامذہ و مستفیدین کو اجازتیں دیتےاور یا علی یا علی کا وظیفہ کرتے وللہ الحجۃ السامیہ، جسے اس کی تفصیل دیکھنی ہوفقیر کے رسالہ انھار الانوار و حیات الموات فی بیان سماع الاموات کی طرف رجوع کرے۔

شاہ عبدالعزیز صاحب نے بستان المحدثین میں حضرتِ ارفع و اعلیٰ امامالعلما نظام الاولیا حضرت سیدی احمد زرّوق مغربی قدس سرہ استاذ شمس الدین لقانی وامام شہاب الدین قسطلانی شارح صحیح بخاری کی مدحِ عظیم لکھی کہ وہ جناب ابدالِسبعہ و محققین صوفیہ سے ہیں، شریعت و حقیقت کے جامع، با وصف عُلُوِّ باطن، ان کیتصانیف علومِ ظاہری میں بھی نافع و مفید و بکثرت ہیں۔ اکابر علما فخر کرتے ہیں کہہم ایسے جلیل القدر عالم و عارف کے شاگرد ہیں، یہاں تک کہ لکھا:

 

بالجملہ مردے جلیل القدرے ست کہ مرتبۂ کمالِ اُو فوق الذکر است۔

خلاصہ یہ کہ وہ بڑی قدر و منزلت والے بزرگ ہیں کہ ان کا مقام ومرتبہ ذکر سے ما ورا ہے۔(ت)

پھر اس جناب جلالت مآب کے کلام سے دو بیتیں نقل کیں کہ فرماتے ہیں ؎

 

انا لمریدی جامع لشتاتہ

اذا ما سطاجورُ الزمان بنکبتہ

وان کنت فی ضیق وکرب ووحشۃٍ

فنا د بیا زرّوق اٰتِ بسرعتہ۔[36]

یعنی میں اپنے مرید کی پریشانیوں میں جمعیت بخشنے والا ہوں جب ستمِزمانہ اپنی نحوست سے اس پر تعدی کرے اور تو تنگی و تکلیف و وحشت میں ہو تو یوں نداکر: یا زروق، میں فوراً آموجود ہوں گا۔

علامہ زیادی، پھر علامہ اجہوری صاحبِ تصانیفِ کثیرہ مشہورہ، پھرعلامہ داؤدی محشی شرح منہج، پھر علامہ شامی صاحبِ ردالمحتار حاشیہ در مختار گم شدہچیز ملنے کے لیے فرماتے ہیں کہ

”بلندی پر جا کر حضرت سیدی احمد بن علو ان یمنی قدس سرہ کے لیےفاتحہ پڑھے پھر انھیں ندا کرے کہ یا سیدی احمد یا ابن علوان۔“ [37]

شامی مشہور و معروف کتاب ہے۔ فقیر نے اس کے حاشیے کی یہ عبارت اپنےرسالہ حیاۃ الموات کے ہامشِ تکملہ پر ذکر کی۔

غرض یہ صحابۂ کرام سے اس وقت تک کے اس قدر ائمہ و اولیا و علما ہیںجن کے اقوال فقیر نے ایک ساعتِ قلیلہ میں جمع کیے۔ اب مشرک کہنے والوں سے صاف صافپوچھنا چاہیے کہ عثمان بن حنیف و عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن عمر صحابۂ کرام رضیاللہ عنہم سے لے کر شاہ ولی اللہ و شاہ عبد العزیز صاحب اور ان کے اساتذہ و مشائختک سب کو کافر و مشرک کہتے ہو یا نہیں؟ اگر انکار کریں تو الحمد للہ ہدایت پائیاور حق واضح ہوگیا اور بے دھڑک ان سب پر کفر و شرک کا فتویٰ جاری کریں تو ان سےاتنا کہیے کہ اللہ تمھیں ہدایت کرے۔ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو تو کسے کہا اور کیاکچھ کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور جان لیجیے کہ جس مذہب کی بنا پر صحابہ سےلے کر اب تک کے اکابر سب معاذاللہ مشرک و کافر ٹھہریں وہ مذہب خدا اور رسول کو کسقدر دشمن ہوگا۔

صحیح حدیثوں میں آیا کہ ”جو مسلمان کو کافر کہے خود کافر ہے۔“ [38]اور بہت ائمۂِ دین نے مطلقاً اس پر فتویٰ دیا جس کی تفصیل فقیر نے اپنے رسالہالنھی الاکید عن الصلوٰۃ وراء عدی التقلید میں ذکر کی۔ ہم اگرچہ بحکم احتیاط تکفیرنہ کریں تاہم اس قدر میں کلام نہیں کہ ایک گروہِ ائمہ کے نزدیک یہ حضرات کہ یارسول اللہ و یا علی و یاحسین و یا غوث الثقلین کہنے والے مسلمانوں کو کافر و مشرکینکہتے ہیں خود کافر ہیں تو ان پر لازم کہ نئے سِرے سے کلمۂ اسلام پڑھیں اور اپنیعورتوں سے نکاح تجدید کریں۔ دُرِّ مختار میں ہے:

مافیہ خلاف یؤمر بالاستغفار و التوبۃ وتجدید النکاح۔ [39]

اور جس چیز کے کفر میں اختلاف ہو اس کے مرتکب کو استغفار و توبہاور تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ (ت)

فائدہ: حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ندا کرنے کے عمدہدلائل سے ”التحیات“ ہے جسے ہر نمازی ہر نماز کی دو رکعت پر پڑھتا ہے اور اپنے نبیِکریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے عرض کرتا ہے السلامُ علیک ایھا النبی ورحمۃاللہ وبرکاتہ سلام حضور پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔

اگر ندا معاذاللہ شرک ہے تو یہ عجب شرک ہے کہ عین نماز میں شریک وداخل ہے ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اور یہ جاہلانہ خیال محض باطل کہالتحیات زمانۂِ اقدس سے ویسے ہی چلی آتی ہے تو مقصود ان لفظوں کی ادا ہے نہ کہ نبیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ندا حاشا وکلّا شریعتِ مطہرہ نے نماز میں کوئی ذکرایسا نہیں رکھا ہے جس میں صرف زبان سے لفظ نکالے جائیں اور معنی مراد نہ ہوں۔ نہیںنہیں بلکہ قطعاً یہی درکار ہے التحیات للہ والصلوات سے حمدِ الٰہی کا قصد رکھے اورالسلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے یہ ارادہ کرے کہ اس وقت میں اپنےنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کرتا اور حضور سے بالقصد عرض کر رہا ہوں کہسلام حضور اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔

فتاواے عالمگیری میں شرح قدوری سے ہے:

لابدَّ من ان یقصد بالفاظ التشھد معانیھا التی وضعت لھا من عندہکانہ یُحَیِّ اللہ تعالٰی ویسلّم علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی نفسہوعلٰی اولیاءِ اللہ تعالٰی۔ [40]

تشہدکے الفاظ سے ان معانی کا قصد کرنا ضروری ہے جن کے لیے ان الفاظکو وضع کیا گیا ہے اور جو نمازی کی طرف سے مقصود ہوں۔ گویا کہ نمازی اللہ تعالیٰکی بارگاہ میں نذرانۂ عبادت پیش کر رہا ہے اور نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہوسلم پر، خود اپنی ذات پر اور اولیاء اللہ پر سلام بھیج رہا ہے۔ (ت)

تنویر الابصار اور اس کی شرح دُرِّ مختار میں ہے:

(ویقصد بالفاظ التشہد) معانیہا مرادۃ لہ علٰی وجہ (الانشاء) کانہیحیِّ اللہ تعالٰی ویسلم علی نبیّہ وعلٰی نفسہ واولیائہ (لاالاخبار) عن ذٰلک ذکرہفی المجتبٰی۔ [41]

الفاظِ تشہد سے اُن کے معانی مقصودہ کا بطور انشا قصد کرے، گویا کہوہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اظہارِبندگی کر رہا ہے اور اس کے نبی صلی اللہتعالیٰ علیہ وسلم، خود اپنی ذات اور اولیاء اللہ پر سلام بھیج رہا ہے، ان الفاظ سےحکایت و خبر کا قصد نہ کرے۔ اس کو مجتبےٰ میں ذکر کیا ہے۔(ت)

علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں فرماتے ہیں:

یَقْصُدُ مَعَانِیَہ مرادۃً لہ علٰی اَنَّہ یُنْشِئُھَا تَحِیَّۃًوَسَلَامًا مِنْہُ۔ [42]

قصد کرے معنی مقصودہ کا بایں طور کہ نمازی اپنی طرف سے تحیّہ اورسلام پیش کر رہا ہے۔ (ت)

اسی طرح بہت علما نے تصریح فرمائی۔ اس پر بعض سفہاے منکرین یہ عذرگھڑتے ہیں کہ صلوٰۃ و سلام پہنچانے پر ملائکہ مقرر ہیں تو ان میں ندا جائز اور انکے ماورا میں ناجائز، حالاں کہ یہ سخت جہالت بے مزہ ہے، قطع نظر بہت اعتراضوں سےجو اس پر وارد ہوتے ہیں ان ہوشمندوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ صرف درود و سلام ہینہیں بلکہ اُمت کے تمام اقوال و افعال و اعمال روزانہ دو وقت سرکار عرش وقار حضورسید الابرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عرض کیے جاتے ہیں۔ احادیثِ کثیرہ میںتصریح ہے کہ مطلقاً اعمالِ حسنہ و سیئہ سب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کیبارگاہ میں پیش ہوتے ہیں، اور یونہی تمام انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور والدینو اعزا و اقارب سب پر عرضِ اعمال ہوتی ہے۔ فقیر نے اپنے رسالہ ”سلطنۃ المصطفیٰ فیملکوت کل الوریٰ“ میں وہ سب حدیثیں جمع کیں، یہاں اسی قدر بس ہے کہ امامِ اجلعبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سعید بن المسیّب رضی اللہ تعالیٰعنہما سے راوی:

لیس من یومٍ الّا وتعرض علی النبی وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلماعمال اُمّتہ غدوۃ وعشیّا فیعرفھم بسیماھم واعمالھم۔ [43]

یعنی کوئی دن ایسا نہیں جس میں سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہوسلم پر اعمالِ اُمت ہر صبح و شام پیش نہ کیے جاتے ہوں، تو حضور کا اپنے اُمتیوںکو پہچاننا ان کی علامت اور ان کے اعمال دونوں وجہ سے ہے (صلی اللہ تعالیٰ علیہوسلم وعلیٰ آلہ وصحبہ وشرف و کرم)۔

فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ بتوفیق اللہ عزوجل اس مسئلے میں ایک کتابِمبسوط لکھ سکتا ہے مگر منصف کے لیے اسی قدر وافی، اور خدا ہدایت دے تو ایک حرفکافی۔

اکفنا شر المضلین یا کافی وصل علٰی سیدنا ومولانا محمدن الشافیواٰلہ وصحبہ حماۃ الدین الصافی اٰمین والحمد للہ رب العالمین۔

اے کفایت فرمانے والے! ہماری طرف سے گمراہ کرنے والوں کے شرکا دفاعفرما۔ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰ پر درود نازل فرما جو شفا عطا فرمانے والےہیں اور آپ کے آل و اصحاب پر جو دین صافی کے حمایتی ہیں۔ آمین والحمد للہ ربالعالمین (ت)۔

کتب عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفےٰ النبیالامی صلی اللہ علیہ وسلم

 

(حواشی و حوالہ جات)

[1] ۔ جامع ترمذی، ابواب الدعوات باب فیانتظار الفرج وغیر ذلک، امین کمپنی دہلی،2/197

سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی صلوٰۃ الحاجۃ، ایچ ایم سعید کمپنی،کراچی، ص 100

المستدرک للحاکم، کتاب الدعا مکتبۂ اسلامیہ، بیروت 1/ 519 وصحیحابن خزیمۃ، باب صلوٰۃ الترغیب 2/ 226

[2]۔ الترغیب والترھیب بہ حوالہ الطبرانی الترغیب فی صلوٰۃ الحاجۃحدیث 1 مصطفے الباب مصر 1/ 274۔676۔

مجمع الزوائد بہ حوالہ طبرانی، باب صلوٰۃ الحاجۃ، دارالکتاب بیروت2 /279۔

[3] ۔ الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی الترغیب فی صلوٰۃ الحاجۃحدیث 1 مصطفے الباب مصر 1 /274۔676۔

مجمع الزوائد، بحوالہ طبرانی، باب صلوٰۃ الحاجۃ، دارالکتاب بیروت 2/279۔

* ولفظ البخاری فی الادب المفرد خدرت رجل ابن عمر فقال لہ رجل اذکراحب النسا الیک فقال یا محمداہ 12منہ [الادب المفرد، حدیث:964، مکتبۃ الاثریۃسانگلہ، ص:250]

[4] ۔ عمل الیوم واللیلۃ، حدیث 168، دائرۃ المعارف النعمانیہ، ص47۔

[5] ۔ الاذکار، باب مایقولہ اذا خدرت رجلہ، دارالکتاب العربیبیروت، ص 271۔

[6] ۔ نسیم الریاض شرح الشفاء، فصل فیماروی عن السلف، مرکزِ اہلِسنت برکاتِ رضا، گجرات، الہند 3 /355۔

[7] ۔ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر، ذکر القحط و عام الرمادہ،دار صادر بیروت، 2 /556۔

[8] ۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ترجمہ 4907، دار المعرفۃللطباعۃ، 2 /574۔

[9] ۔ فتاوی الرملی فی فروع الفقہ الشافعی، مسائل شتی، دارالکتبالعلمیہ، بیروت 4/733۔

[10] ۔ فتاوٰی خیریہ، کتاب الکراہۃ والاستحسان، دارالمعارفۃللطباعۃ، بیروت، 2 /182۔

[11] ۔ فتاوٰی جمال بن عبد اللہ بن عمر مکی۔

[12] ۔ شرح الصدور، بحوالہ عیون الحکایات، باب زیارۃ القبور و علمالموتیٰ الخ، خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص:9۔

[13] ۔ شرح الصدور، بحوالہ عیون الحکایات، باب زیادۃ القبور و علمالموتی الخ، خلافت اکیڈمی منگورہ سوات،ص:90۔

[14] ۔ شرح الصدور، باب زیادۃ القبور، مصطفی البابی مصر، ص:89۔

[15] ۔ بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، مصطفی البابیمصر،ص: 102۔

زبدۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و مریدیہ و محبیہ، بکسلنگ کمپنیبمبئی، ص:101۔

* حاشیہ:امام جلال الدین سیوطی نے ان جناب کو الامام الاوحد لکھایعنی امام یکتا بے نظیر 12منہ۔

[16] ۔ زبدۃ الآثار، بکسلنگ کمپنی بمبئی، ص:2۔

[17] ۔ زبدۃ الآثار، بکسلنگ کمپنی، بمبئی، ص:2۔

[18] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 324 ،الشیخ محمدالغمری مصطفےٰ البابی مصر، 2 /88۔

[19] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 325، سیدنا و مولاناشمس الدین حنفی مصطفےٰ البابی مصر، 2 /95۔

[20] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 325، سیدنا و مولاناشمس الدین الحنفی مصطفےٰ البابی مصر 2 /96۔

[21] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 329، الشیخ محمد بناحمد الفرغل مصطفےٰ البابی مصر 2 /96۔

[22] لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 329،الشیخ محمد بناحمد الفرغل مصطفےٰ البابی مصر 2 /105۔

[23] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 326، الشیخ مدین بناحمد الاشمونی مصطفےٰ البابی مصر 2 /102۔

[24] ۔ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ 313، الشیخ موسیٰالمکنی بابی عمران مصطفےٰ البابی مصر 2 /21۔

[25] ۔ اخبارالاخیار، ترجمہ شیخ بہاء الدین براہیم عطاء اللہالانصاری مکتبہ، نوریہ رضویہ سکھر، ص:199۔

[26] ۔ نفحات الانس، ترجمہ مولانا جلال الدین رومی، کتاب فروشیمحمودی، ص: 462 و 463۔

[27] ۔ نفحات الانس، ترجمہ مولانا جلال الدین رومی، کتاب فروشیمحمودی، ص: 462 و 463۔

[28] ۔ نفحات الانس، ترجمہ مولانا جلال الدین الرومی، کتاب فروشیمحمودی، ص: 462 و 463۔

[29] ۔ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم، فصل یاز دہم، مجتبائیدہلی، ص:22۔

[30] ۔ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم، فصل یاز دہم ،مجتبائیدہلی، ص:22۔

[31] ۔ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم، فصل اول، مجتبائیدہلی، ص:2۔

[32] ۔ اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم، فصل اول، مجتبائی دہلی،ص:4۔

[33] ۔ اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم، فصل ششم، مطبع مجتبائیدہلی، ص:33۔

[34] ۔ اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم، فصل ششم ،مطبع مجتبائیدہلی ص 33 و 34۔

[35] ۔ الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ

نوٹ: الانتباہ دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں سلاسلِ طریقتبیان کیے گئے ہیں اور دوسرے حصے میں فقہ و حدیث کی سندیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسراحصہ مکتبۂ سلفیہ لاہور نے ”وصّاف النبیہ“ کے نام سے شائع کیا تھا، ناشر نے مقدمےمیں تصریح کی ہے اس حصے کا ایک باب نہیں مل سکا اور وہ کچھ ضروری بھی نہ تھا،غالباً یہ حوالہ اسی ”غیر ضروری“ حصے میں قلم زد ہوگیا ہے 12، شرف قادری۔

[36] ۔ بستان المحدثین، حاشیہ سید زرّوق فاسی علی البخاری، ایچ ایمسعید کمپنی کراچی، ص 322۔

[37] ۔ حواشی الشامی علیٰ رد المحتار، کتاب اللقطہ، دار احیاالتراث العربی بیروت، 3/324۔

[38] ۔ صحیح البخاری، کتاب الادب، باب من اکفرا خاہ بغیر تاویل،قدیمی کتب خانہ کراچی، 2 /901۔

صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حال الایمان من قال لاخیہالمسلم یا کافر کراچی 1/57۔

[39] ۔ الدرالمختار، کتاب الجہاد، باب المرتد، مطبع مجتبائی دہلی،1 /359۔

[40] ۔ الفتاوی الہندیۃ،کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثانی، نورانی کتبخانہ پشاور،1 /72۔

[41] ۔ الدرالمختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلوۃ، باب صفۃالصلوٰۃ، مطبع مجتبائی دہلی،1 /77۔

[42] ۔ مراقی الفلاح علیٰ ہامش حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الصلوٰۃ، نورمحمد کارخانہ تجارتِ کتب، کراچی، ص 155۔

[43] ۔ المواہب الدنیۃ،بحوالہ ابن المبارک عن سعید ابن المسیب،المقصد الرابع، الفصل الثانی بیروت،2 /697۔

(ماخوذ از، فتاوٰی رضویہ، ج:29، ص:549 تا 569)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ان اولوہابیۃ قوم لا یعقلون

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے 

یہ گھٹائیں اسے منظور بڑھانا تیراآآ

فیس بُک پر ہمارا پیج لائک کریں
 

کچھ لوگ فیس پر پر ہمارے سنی بھائیوں کو بہکا رہے ہیں ان سے بچنے کے لئے ہمارا پیج لائک کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  • s-facebook

اللہ پاک ہم سب کو ان نجدیوں کے فتنے سے محفوظ رکھے (امین)
 
یہ وہابی نجدی اللہ اور اس کے رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء امت کے گستاخ ہیں اور ان کا ناجی گروہ سے کوئی تعلق نہیں

bottom of page