حاضر و ناظر کا اعلٰی ثبوت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نظام عالم قائم ہے
وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
(پارہ 9 سورہ انفال رکوع 4 ، آیت 33)
اور اللہ کا کام نہیں کہ ان کو عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں ہو۔
یہ آیت کریمہ بھی حضور علیہ السلام کی کھلی ہوئی نعت ہے۔ اور اس میں حضور علیہ السلام کے رحمت عالم ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا نزول اس موقعہ پر ہوا کہ ایک بار کفار نے دعا کی، کہ خداوند اگر یہ قرآن سچا ہے اور ہم اس پر ایمان نہیں لاتے، تو تو ہم پر پتھر برسا دے آسمان سے یا ہم کو عذاب میں مبتلا کردے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اور فرمایا گیا کہ اے محبوب یہ لوگ اپنی موت اپنے منہ سے مانگ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اے پیارے تم ان میں ہو، اور تم کو رحمتِ عالم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور رحمتِ کاملہ اور عذابِ میں اجتماع نہیں ہوسکتا۔ اس لئے تمہاری موجودگی میں ان پر عذاب نہیں آوے گا۔ اس آیت میں چند فائدے حاصل ہوئے، ایک تو یہ کہ حضور علیہ السلام کی برکت سے عذاب الٰہی سے امن ہے۔ دوسرے یہ کہ قیامت تک کہ کسی پر پتھر برسے، اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا گیا۔ کسی قوم کو پانی میں ڈبو دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام قیامت تک مسلمانوں میں جلوہ گر ہیں۔ تیسرے یہ کہ آپ کا ہونا فقط مدینہ پاک میں نہیں ہے بلکہ جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ ان میں اسی جگہ حضور علیہ السلام بھی جلوہ گر ہیں۔ کیونکہ عذاب وہاں نہ آوے گا جہاں کہ حضور ہوں، اور عذاب تو کہیں بھی نہ آوے گا۔ تو معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام ہر جگہ موجود ہیں۔ چوتھے اس طرح کہ حضرت عسیٰی علیہ السلام آسمان پر بلائے گئے اور حضرت ادریس علیہ السلام جنت میں بلالئے گئے۔ مگر حضور علیہ السلام دنیا میں زمین پر ہی جلوہ افروز ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ سے دنیا کا انتظام قائم ہے زمین سے آپ کا چلا جانا زمین والوں کےلئے مصیبت ہوجاتا (روح البیان یہ ہی مقام)۔ پانچویں اس طرح کہ دائرہ کی بقا مرکز سے ہے، چکی کا چلنا اور گھومنا کیل سے ہے، اسی طرح آسمان کی چکی کا گھومنا مرکز مدینہ پاک کی وجہ سے ہے، اور جو دانہ چکی میں کیل سے لگ جاتا ہے وہ چکی سے نقصان نہیں اٹھاتا، اسی طرح جو انسان اس مرکز کا ہوگیا۔ نقصان سے محفوظ رہا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔