
کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے
مذہب مہذب حنفی میں جنازہ غائب پر بھی محض ناجائز ہے ۔ائمہ حنفیہ کا اس کے عدمِ جواز پر بھی اجماع ہے خاص ا سکا جزئیہ بھی مصرح ہونے کے علاوہ تمام عبارات مسئلہ اولٰی بھی اس سے متعلق کہ غالباً نمازِ غائب کو تکرار صلواۃ جنازہ لازم۔بلاد اسلام میں جہاں مسلمان انتقال کرے نماز ضرور ہوگی،اوردوسری جگہ خبر اس کے بعد ہی پہنچے گی، ولہذاامام اجل نسفی نے کافی میں اس مسئلہ کو اس کی فرع ٹھہرایا،اگرچہ حقیقۃً دونوں مستقل مسئلے ہیں۔اب اس مسئلہ کی نصوص خاصہ لیجئے ، اور بہ نظر تعلق مذکور سلسلہ عبارات بھی وہی رکھئے۔
(۲۰۸) فتح القدیر(۲۰۹) حلیہ(۲۱۰) غنیـہ(۲۱۱) شلبیہ(۲۱۲) بحرالرائق(۲۱۳) ارکان میں ہے:وشرط صحتہا اسلام المیت وطہارتہ وضعہ امام المصلی فلھذا القیدلاتجوز علی غائب ۱؎۔صحتِ نماز جنازہ کی شرط یہ ہے کہ میّت مسلمان ہو طاہر ہو، جنازہ نمازی کے آگے زمین پررکھا ہو ۔اسی شرط کے سبب کسی غائب کی نماز جنازہ جائز نہیں۔
(۱؎ فتح القدیر فصل فی الصلٰوۃ علی المیت مکتبہ نوریہ رضویہ ۲ /۸۰)
(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۸۳)
حلیہ کے لفظ یہ ہیں:شرط صحتھا کونہ موضوعاامام المصلی ومن ھنا قالوا لاتجوز الصلٰوۃ علی غائب مطلقا۲؎۔نمازِ جنازہ کی شرائطِ صحت سے ہے جنازہ کا مصلّی کے آگے ہونا۔اسی لئے ہمارے علماء نے فرمایا کہ مطلقاً کسی غائب پر نماز جائز نہیں۔
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
(۲۱۴)متن تنویرالابصارمیں ہے:شرطہا وضعہ امام المصلی۳؎۔جنازہ کا نمازی کے سامنے ہونا شرطِ نماز جنازہ ہے۔
(۳؎درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۱)
(۲۱۵) برہان شرح مواہب الرحمن طرابلسی(۲۱۶) نہر الفائق (۲۱۷) شرنبلالیہ علی الدرر(۲۱۸) خادمی (۲۱۹) ہندیہ(۲۲۰) ابوالسعود ۔ (۲۲۱) درمختار میں ہے : شرطھا حضورہ فلاتصح علٰی غائب۴؎۔جنازہ کاحاضر ہونا شرطِ نماز ہے لہذا کسی غائب پر نمازِ جنازہ صحیح نہیں۔
(۴؎ درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۱)
(۲۲۲) متن نورالایضاح میں ہے :شرائطہا اسلام المیت وحضورہ ۵؎۔صحتِ نمازِجنازہ کی شرطوں سے ہے میّت کا مسلمان ہونا اور نمازیوں کے سامنے حاضر ہونا۔
(۵؎ نورالایضاح فصل فی الصّلٰوۃ علی المیّت مطبع علیمی لاہور ص۵۵۶)
(۲۲۳) متن ملتقی الابحر میں ہے:لایصلی علی عضو ولاعلی غائب۶؎۔ میّت کا کوئی عضو کسی جگہ ملے تو اس پر نماز جائز نہیں ،نہ کسی غائب پر جائز ہے۔
(۶؎ ملتقی الابحر فصل فی الصّلٰوۃ علی المیّت موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱ /۱۶۱)
(۲۲۴) شرح مجمع(۲۲۵) مجمع شرح ملتقی میں ہے:محل الخلاف فی الغائب عن البلد اذلوکان فی البلد لم یجز ان یصلی علیہ حتی یحضر عندہ اتفاقا لعدم المشقۃ فی الحضور۱؎۔امام شافعی رضی اﷲتعالٰی عنہ کا اس مسئلہ میں ہم سے خلاف بھی اس صورت میں ہے کہ میّت دوسرے شہر میں ہو اگر اسی شہر میں ہو تو نماز غائب امام شافعی کے نزدیک بھی جائز نہیں کہ اب حاضر ہونے میں مشقت نہیں۔
(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر فصل فی الصلٰوۃ علی المیت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۸۵)
(۲۲۶) فتاوٰی خلاصہ میں ہے :لایصلی علٰی میّت غائب عندنا۲؎۔ ہمارے نزدیک کسی میّت غائب پر نماز نہ پڑھی جائے۔
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی الصلٰوۃ علی الجنازۃ اربع تکبیرات مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۲۴)
(۲۲۷) متن وافی میں ہے :من استھل صلی علیہ والّالاکغائب۳؎۔جوبچّہ پیداہوکر کچھ آواز کرے جس سے اس کی حیات معلوم ہو پھر مرجائے اس پر نماز پڑھی جائے ورنہ نہیں،جیسے غائب کے جنازہ پر نماز نہیں۔
(۳؎ وافی)
(۲۲۸)کافی میں ہے:لایصلی علٰی غائب وعضو خلافا للشافعی بناء علی ان صلاۃ الجنازۃ تعاد ام لا ۴؎۔کسی غائب یا عضو پر نماز ہمارے نزدیک ناجائز ہے اوراس میں امام شافعی کا خلاف ہے اس بناء پر کہ نماز جنازہ ان کے نزدیک دوبارہ ہوسکتی ہے، ہمارے نزدیک نہیں۔
(۴؎ کافی شرح وافی)
(۲۲۹) فتاوٰی شیخ الاسلام ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ غزی تمرتاشی میں ہے:ان اباحنیفہ لایقول بجواز الصلاۃ علی الغائب۵؎۔ہمارے امام اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ جنازہ غائب پر نماز جائز نہیں مانتے۔
(۵؎ فتاوٰی امام غزی تمرتاشی کتاب الطہارۃ والصّلٰوۃ مطبع اہل السنۃ والجماعۃ بریلی ص۴)
(۲۳۰) منظومۂ امام مفتی الثقلین میں ہے:باب فتاوی الشافعی وحدہ ومابہ قال قلنا ضدہ
وھی علی الغائب والعضوتصح وذاک فی حق الشہید قدطرح۱۱؎صرف اما م شافعی قائل ہیں کہ غائب اور عضوپر نماز صحیح ہے اور شہید کی نماز نہ ہو اور ان سب مسائل میں ہمارا مذہب اس کے خلاف ہے۔ ہمارے نزدیک غائب وعضو پر نماز صحیح نہیں اور شہید کی نماز پڑھی جائےگی۔
(۱؎ منظومۂ امام مفتی الثقلین عمرالنسفی)