top of page
Title. Double click me.
![]() |
---|
مختارِ کُل
پارہ 26، سورہ نمبر 49، الحجرات، آیت نمبر 2" میں جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ادب سکھایا جا رہا ہے۔ وہیں آپکے اختیارات و دسترس کو بھی بیان کیا گیا۔
شانِ نزول
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے
کہ
یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس
کے حق میں نازل ہوئی انہیں ثقلِ سماعت تھا اور آواز ان کی اونچی تھی، بات کرنے میں آواز بلند ہوجایا کرتی تھی
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں اہلِ نار سے ہوں، حضور نے حضرت سعد سے ان کا حال دریافت فرمایا
انھوں نے عرض کیا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں اور میرے علم میں انہیں کوئی بیماری تو نہیں ہوئی
پھر آ کر حضرت ثابت سے اس کا ذکر کیا ، ثابت نے کہا، یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں تو میں جہنّمی ہوگیا
حضرت سعد نے یہ حال خدمتِ اقدس میں عرض کیا
تو
حضورنے فرمایا
کہ
وہ اہلِ جنّت سے ہیں
اعتراض کرنے والے غور کریں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اختیارات کے تحت فرمایا کہ "وہ اہلِ جنت ہیں" جب کہ قرآنِ کریم میں اللہ عزوجل نے فرمایا "اعمال اکارت نہ ہو جائیں" مگر اللہ کے محبوب ان حضرت کے بارے بشارت دیتے ہیں کہ یہ جنتی ہیں
اب اگر اس آیت و تفسیر سے انکار کرتے ہوئے کوئی یہ کہے کہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا کہ جنتی یا جہنمی یا کسی فرشتہ نے خبر دی کہ یہ حضرت جنتی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرما دیا کہ جنتی ہیں۔ اس میں اختیارات کہاں
تو اب جو آیت پیش کرنے جا رہا ہوں اس آیت کو پڑھ کر ان خبیس، نجدیوں، دیوبندیوں، وہابیوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ یہ کافر ٹولہ ہے
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا - الاحزاب: آیت نمبر 32
ترجمہ
اے نبی کی بیبیو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو, اگر اللّٰہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے, ہاں اچھی بات کہ
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے اللہ عزوجل کلام حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے فرما رہا ہے۔ اور اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا - الاحزاب : آیت نمبر 33
ترجمہ
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللّٰہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے
اس آیت کو آیت تطہیرا، یعنی پاک کرنے والی آیت بھی کہا جاتا ہے خیر آپ نے پڑھ لیا کہ اللہ عزوجل نے چاہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج کے بارے خواہش فرمائی کہ "اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کر دے"
اختیاراتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جاننے کے لئے اسکی تفسیر پڑھیئے
تفسیر ابنِ کثیر۔ جلد 22، پارہ 21، صفحہ نمبر 671
ابنِ ابی حاتم میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو چاہے مجھ سے مباہلہ کر لے۔ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواجِ مطہرات ہی کی شان میں ناذل ہوئی
اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شانِ نزول یہی ہے اور نہیں تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہلِ بیت میں اور کوئی ان کے سواء داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے
اس لئے کہ احادیث سے اہلِ بیت میں ازواجِ مطہرات کے سواء اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 1
مسندِ احمد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحب کی نماز کے لئے جب نکلتے توحضرت فاطمہ رضی اللہ کے دروازے پر پہنج کر فرماتے۔ اے اہلِ بیت نماز کا وقت آ گیا ہے۔ پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے۔ امام ترمذی اسے حسنِ غیرب بتاتے ہیں
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 2
مسند میں ہے شداد بن عمار کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا اس وقت کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہو رہا تھا
وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ میں نے بھی انکا ساتھ دیا۔ جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ تو نے بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے؟
میں نے کہاں، ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی۔
تو فرمایا: سُن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سُناتا ہوں
میں ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں۔ میں انکے انتظار میں بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم بھی ہیں۔ دونوں بچے آپ کی انگلیاں تھامے ہوئے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا۔ پھر اسی آیت "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا - الاحزاب : آیت نمبر 33" کی تلاوت کر کے فرمایا
"اے اللہ عزوجل"
یہ ہیں میرے اہلِ بیت اور میرے اہلِ بیت کے زیادہ حقدار ہیں
یہاں پر اختیاراتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار واضح ہے۔ وگرنہ کس کی مجال کی اللہ کے حکم کے آگے چوں چراں کرے۔ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہیں جو کہ مقامِ محود پر فائز ہوئے اور جیسے چاہا ویسے کو بذریعہ دعا عرض کیا۔
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 3
مسند احمد میں ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔ حضور میرے گھر میں تھے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے میاں اور بچوں کو بھی بلالو۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے بستر پر تشریف فرما تھے۔ خیبر کی ایک چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی
جو یہ آیت اتری
پس حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ مبارک نکال کر آسمان کی طرف اتھا کر یہ دعا کی
کہ
الہٰی
یہ میرے اہلِ بیت اور حمایتی ہیں
تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر
میں "امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ" زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم" نے اپنا سر نکال کر کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؟
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یقیناً تو بہتری کی طرف ہے فی الواقع تو خیر کی طرف ہے
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 4
ایک اور روایت میں ہے کہ میں اس وقت گھر کے دروازے کے قریب بیتھی ہوئی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ کیا میں اہلِ بیت میں سے نہیں ہوں؟
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 5
ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لیجئے۔ تو فرمایا تو میری *"ہل" ہے
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 6
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے بیٹھے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی "مسلم وغیرہ"
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 7
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں سُوال کیا تو آپ نے فرمایا:
وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے۔ ان کے گھر میں آپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ کی محبوب تھیں
پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا میں نے قریب جا کر کہا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بھی آپکے اہلِ بیت میں سے ہوں ؟
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دور رہو۔ تم یقیناً خیر پر ہو۔ "ابنِ ابی حاتم"
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 8
حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 9
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں "جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وہی اتری تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان چاروں کو اپنے کپڑوں تلے لے کر فرمایا " یا رب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہلِ بیت ہیں" ابنِ جریر
مختارِ کل کا ثبوت/حدیث نمبر 10
صحیح مسلم شریف میں ہے۔ حضرت یزید بن حبان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ حصین کہنے لگے۔ اے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اچھا تو ہمیں کوئی حدیث سناو
تو فرمایا یہ بھی مروی ہے کہ میں نے پوچھا "کیا آپ کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں؟ کہا نہیں۔ قسم ہے اللہ کی، بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دے دے تو وہ اپنے میکے میں اپنی قوم میں چلی جاتی ہے۔ آپ کے اہلِ بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے۔۔۔۔۔ الخ
میرے دوستو بھائیو۔ مندرجہ بالا 10 صحیح الاسناد احادیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اختیارات کے ہونے کا اظہار فرمایا حالانکہ قرآن کی آیت آپ نے جو پڑھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے میں نازل ہوئی۔ مگر اللہ عزوجل نے وہ قبول فرمایا جو کہ منشاءِ مصفطیٰ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھی
اب اگرکوئی خبیس نجدی لعین دیوبندی یا وہابی آپکے سامنے گستاخی کا مرتکب ہو تو اس سوہر کو منہ کی کھلاتے ہوئے اس کافر کو احادیث اور قرآنِ کریم کی آیات سنائیئے۔ ان شاء اللہ عزوجل اس امر کے تحت اللہ عزوجل آپکو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں نصیب فرمائے گا
وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين
bottom of page