ILM E GAIB KA SUBOOT QURAN SE
- Waheed Ahmed
- May 1, 2014
- 4 min read
: علم الغیب قرآن سے. علم الغیب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پروردگار نے "علم الغیب" عطا فرمایا، اس حقیقت کو 3 جہتوں سے سمجھا جاسکتا ہے؛۔ 1۔ آپ کو براہ راست "علم غیب عطا کیا"۔ 2۔ آپ کو قرآن عطا فرمایا گیا جو "علم ِ غیب" کا خزانہ ہے۔3۔ آپ کو شاہد بنا کر بھیجا گیا اور شاہد وہی ہوتا ہے جو واقعہ کے وقت موجود بھی ہو اور دیکھ بھی رہا ہو یعنی اس کو ہربات کا عین الیقین اور حق الیقین حاصل ہوتا ہے۔ اول۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے "علم غیب" کو پہلی جہت سے دیکھا جائے تو یہ آیات آپ کے "علم غیب" کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1۔ یہ باتیں منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف۔(حوالہ جات آخر میں)۔ 2۔یہ خبریں ہیں غیب کی کہ ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔ 3۔ اور یہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں ۔ دوئم ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے "علم غیب" کو دوسری جہت سے دیکھا جائے تو یہ آیات کافی ہیں۔ ا۔ ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے جو کہ تمام باتوں کا بیان کرنے والا ہے۔ 2۔ (یہ قرآن) کچھ بنائی ہوئی بات نہیں لیکن موافق ہے۔ اس کلام کے جو اس سے پہلے ہے اور بیان ہر چیز کا۔ 3۔ ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا ۔ 4۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ 5۔ اور کوئی چیز نہیں جو غائب ہو آسمان اور زمین میں مگر موجود ہے ، کھلی کتاب میں۔ 6۔ اور کوئی دانہ زمین کے اندھیروں اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز مگروہ سب کتاب مبین میں ہے۔ حوالہ جات؛ سورہ ہود ۴۹ ، ترجمه اردو مولوي محمود الحسن ديوبندي، سوره يوسف ۱۰۲، سوره تکوير ۲۴ ، سوره نحل ۸۹ ترجمه اردو مولوي اشرف علي تهانوي، سوره يوسف ۱۱۱ ترجمه محمود الحسن ديوبندي، سوره انعام ۳۸ ترجمه اردو مولانا احمد رضا خان حنفي ، سوره مائده ۱۵ ايضاً ، سوره نمل ۷۵ ترجمه مولوي محمود الحسن ، سوره انعام ۵۹ ، اردو ترجمه مولوي محمود الحسن آپ نے ملاحظہ فرمایا، ان آیات میں پہلے "کتاب مبین" قرآن حکیم کا ذکر فرمایا پھر یہ فرمایا کہ اس روشن کتاب میں کیا کیا کچھ ہے۔۔۔۔۔ غور کریں یہ روشن کتاب جس میں زمین و آسمان کی ہرشئے کا بیان ہے جس ذات قدسی پر اتری ، اس کے علم و دانش کا کیا عالم ہوگا!۔ سوئم ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے "علم غیب" کو تیسری جہت سے دیکھا جائے تو یہ آیات کریمہ ہم کو ایک نئے جہان مٰں لے جاتی ہیں۔ جہاں ہم حیرت سے ایکدوسرے کا منہ تکتے ہیں مگر جو کچھ کہا گیا اس پر دل وجان سے ایمان لاتے ہیں کہ اگر ایمان نہ لائیں گے تو کہیں کے نہ رہیں گے، ان آیات پر خوب غور فرمائیں اور علم مصطفیٰ علیہ التحیہ والثناء کی وسعت وپنہائی کا اندازہ لگائیں، ہم کیا اندازے لگا سکتے ہیں ان کا رب کریم ہی جانے کہ اس نے اپنے حبیبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسقدر "علم غیب" عطا فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:۔ 1۔ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا کرکے بھیجا ہے۔ 2۔ اور آپ کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لیئے حاضر لائیں گے۔ 3۔ بے شک ہم نے تمہارے پاس ایک رسول بھیجا ہے جو تم پرگواہی دے گا۔ 4۔ اور جس دن ہم ہر ہر امت سے ایک ایک گواہ جو انہیں میں سے ہوگا ان کے مقابلے میں قائم کریں گے اور ان لوگوں کے مقابلے میں آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے۔ حوالہ جات؛۔ سورہ الفتح 8۔ ترجمہ اردو اشرف علی تھانوی۔ سورہ النساء 41 (ایضاً) ، سورہ مزمل 15 (ایضاً) سورہ نحل 89 ،ایضاً، ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنی امت بلکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کے اعمال کی بھی گواہی دیں گے اور گواہی وہی دیتا ہے جس کے سامنے کوئی کام یا کوئی بات ہوئی ہو۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام سب کچھ ملاحظہ فرما رہے ہیں ، وہ ہمارے احوال و اعمال سے بے خبر نہیں۔ اس پس منظر میں یہ حدیث ملاحظہ کریں فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم نے : جس طرح میں آگے دیکھتا ہوں ، اسی طرح پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔ حوالہ۔ مسلم شریف جلد 2 ص 116 دوسری حدیث میں آتا ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ جاتے ہوئے وادی ازرق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھا پھر وادئ ہرشیٰ میں حضرت یونس علیہ السلام کو اونی جبہ پہنے سرخ اونٹنی پر سوار دیکھا۔،ابن ماجہ ص 20، 208 تیسری حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنت اور دوزخ ملاحظہ فرمارہے ہیں۔ بحوالہ مسلم شریف جلد 2 ص 180 چوتھی حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنت ودوزخ میں جانے والے ہرفرد کو نام بہ نام جانتے ہیں۔ بحوالہ،مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان فی القدر ، الفصل الثانی ص 19 پانچویں حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک شخص نے محفل پاک میں یہ دریافت کیا کہ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ میں تو آپ نے برملا ارشاد فرمایا ، تو دوزخ میں جائے گا۔ بحوالہ۔بخاری شریف ج 3 ص 855 چھٹی حدیث میں فرمایا، میری ساری امت اپنے سب اعمال نیک و بد کے ساتھ میرے حضور پیش کی گئی۔ بحوالہ۔ مسلم شریف ج 1 ص 207 و ابناء المصطفےٰ ص 9 بحوالہ مسند احمد و سنن ابن ماجہ ساتویں حدیث پاک میں فرمایا، رات میری سب امت میرے اس حجرے کے پاس پیش کی گئی ، یہاں تک کہ بے شک ان کے ہرشخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانے۔ انباء المصطفیٰ ص 9 بحوالہ طبرانی

Comments