top of page
Search

اسلامی تاریخ کے ایک نہایت ھی روشن دن کی داستاں..

  • parveen taj raheem
  • Aug 9, 2015
  • 6 min read

ضرور پڑھیے گا.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہہ کے اسلام لانے کے بعد ابو جہل ' ابو لہب ' امیہ ' عتبہ سب لوگ سناٹے میں آگئے تھے.. ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے.. بازار میں بھی جہاں دو آدمی کھڑے ہوتے گفتگو کا موضوع یہی ہوتا.. کبھی باآواز بلند ' کبھی سرگوشیوں کے انداز میں______!! کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے بہادر سے ٹکر لے.. تین روز ہو چکے تھے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام لائے.. یہ مسلمانوں کے لیے سکون کے دن تھے مگر انہیں پتا تھا کہ یہ دور رھے گا نہیں.. ھمارے دشمن ضرور کوئی نہ کوئی چال سوچ رہے ہوں گے.. مگر اس وقت طوفان تھم گیا تھا.. اگر کوئی راہ میں مل بھی جاتا ' منہ پھیر لیتا ' ناک بھوں چڑھا لیتا مگر کہتا کچھ نہیں.. غموں پر غم سہنے کی تو مسلمانوں کو عادت سی ہو گئی تھی مگر خوشی پر خوشی مسلمانوں کے لیئے نئی بات تھی.. ابھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام پر اللہ کا شکر ہی ادا کر رہے تھے کہ مکے کی گلیوں میں ایک شخص نظر آیا.. آنکھوں میں خون اترا ہوا_ ہاتھ میں ننگی تلوار لہراتا اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا وہ اعلان کرکے آیا تھا کہ آج وہ ایک ضرب میں قریش مکہ کی ساری پریشانیاں دور کر دے گا.. یہ مہم جو نوجوان اتنا طویل القامت تھا کہ کھڑے کھڑے گھوڑے پر سوار ہو جاتا تھا ' مزاج سنجیدہ مگر غصیلا.. پیشہ پتھروں اور مصالحوں کی تجارت.. عمر چھبیس 26 سال___!! جس وقت یہ نوجوان مکے کی گلیوں سے گزر رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دار ارقم میں تھے.. ابو قبیس کی پہاڑی کے دامن میں حمر کعبہ کے نزدیک حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی مسجد بھی تھا اور پناہ گاہ بھی.. چند صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے.. حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے کہ انہیں وہ طویل القامت نوجوان نظر آیا.. اس وقت اس کے تیور دیکھے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع کیا.. حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال تھا وہ یہ خبر سنتے ہی فورا کچھ حفاظتی انتظامات کا حکم دیں گے مگر انھوں نے نہایت سکون سے جواب دیا.. "اس کے مجھ تک پہنچنے کے وقت کا انتخاب اللہ پاک کرے گا.." بلال رضی اللہ تعالی عنہ واپس کھڑکی کے باس دوڑ کے گئے.. وہ تلوار لیئے چلا آرہا تھا سیدھا مسلمانوں کی طرف.. بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر عرض کی.. "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے وقت کا انتخاب کر دیا ہے.. وہ آگیا ہے.." یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا.. "آنے دو.. اگر نیک نیتی سے آیا ہے تو خیر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جاۓ گا.." سب مسلمان چوکنے ہو کر بیٹھ گئے.. حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے چولہے ہر دیگچا رکھا تھا جس میں پانی کھول رہا تھا.. بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دل میں سوچا اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو شاید یہ بھی کام آ جائے.. ویسے بھی مسلمانوں کو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی سے بڑا حوصلہ تھا.. حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ پھر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے.. وہ لمبا تڑنگا نوجوان اب مسلمانوں کے دروازے سے کوئی پچاس قدم کے فاصلے پر ہوگا.. اتنے میں بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جسکی پشت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب تھی' اسکے سامنے آکھڑا ہوا.. بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو لگا کوئی بھکاری ہے.. یہ شمشیر بکف نوجوان اپنی غصیلی طبیعت کے باوجود ایک مخیر انسان تھا لیکن اس نے اس بوڑھے کو دینے کے بجاۓ اسے جنجھوڑ کر راستے سے ہٹا دیا.. پھر پتا نہیں کیسی کیسی قسمیں کھا کر چلایا.. "میں اس بد نصیب عورت کے ٹکڑے کر ڈالوں گا.." پھر دیکھا کہ وہ یکایک مڑا اور الٹے پاؤں اسی راستے پر چلا گیا جدھر سے آیا تھا.. تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لگتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی عفریت داخل ہو گیا ہو_____!! بظاہر خطرہ ٹل گیا تھا مگر بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا دل گواہی دے رہا تھا کہ آج بات یہیں ختم نہیں ہوگی.. وہ اس نوجوان سے واقف تھے.. سارا مکہ اسے جانتا تھا.. وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو کسی کام کا عزم کرنے کے بعد اسے ادھورا چھوڑ دیتے ہیں.. چناچہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کھڑکی کے پاس انتظار کرتے رہے.. اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ وہی بزرگ چلے آ رہے ہیں جنہوں نے اس نوجوان کا راستہ روکا تھا اور جنہیں وہ بھکاری سمجھ رہے تھے.. یہ مکے کے درمیانے درجے کے تاجر تھے نعیم رضی اللہ تعالی عنہ بن عبداللہ جو کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہو چکے تھے مگر اسکا اعلان نہیں کیا تھا.. وہ دراوزے سے داخل ہوتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور انہیں اس نوجوان سے ملاقات کا ماجرہ سنایا.. کہنے لگے.. "میں نے باہر گلی میں اس کو ہاتھ میں تلوار لیئے ادھر آتے دیکھا تو پوچھا کہ تلوار کیوں میان سے نکال رکھی ہے..؟ اس نے جواب دیا.. "اسکو قتل کرنے کے لیے جس نے قریش میں تفرقہ ڈال رکھا ہے.." میں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو.. اس پر وہ نہایت غضب ناک ہو کر پوچھنے لگا.. "کون سے گھر کی.." میں اپنے مسلمان ساتھیوں کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس صورت حال میں مجھے کچھ نہ سوجھا.. میں نے کہ دیا اپنی بہن اور بہنوئی کی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاچکے ہیں.. یہ سنتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی.. اس نے مجھے جھنجھوڑ کے پرے کیا اور اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گیا.. شدید اشتعال کے عالم میں چیختا چلاتا اور اپنی بہن کے قتل کی دھمکیاں دیتا.. اللہ ان دونوں میاں بیوی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے.." اس نوجوان کے اسی اشتعال کا مظاہرہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے دور سے دیکھا تھا.. نعیم رضی اللہ تعالی عنہ کی روداد سن کر سب مسلمان اپنے ساتھیوں کی خیریت کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ اتنے میں بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑکی سے دیکھا کہ وہ نوجوان دوبارہ چلا آرہا ہے.. کھنچی ہوئی تلوار اب بھی اسکے ہاتھ میں تھی.. حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے بھاگ کر دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا صورت حال کا اندازہ لگا لیا.. وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو کہنے لگے.. "دروازہ کیوں بند کر دیا بلال.. ؟" بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا.. "وہ پھر آ رہا ہے تلوار لہراتا ہوا.." حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحے کےلیئے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو خاموش نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا.. "پیغمبر کا دروازہ کسی کے لیئے بند نہیں ہوتا.. اللہ سے ڈرو بلال اور دروازہ کھول دو.." یہ کہ کر وہ کمرے کے وسط میں جا کر کھڑے ہو گئے.. سارے صحابی بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے.. حسب حکم بلال رضی اللہ تعالی عنہ دروازہ کھولنے کے لیئے پہنچے ہی تھے کہ باہر سے دستک سنائی دی.. نوجوان تلوار کے دستے سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا.. حضرت بلال نے فورا دروازہ کھول دیا.. اب جو مسلمانوں نےدیکھا اس پر یقین نہ آیا_____!! وہ جھک کر دروازے سے داخل ہوا.. اسکے اندر قدم رکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آگے بڑھے اور اسکا دامن جھٹک کر اس سے پوچھا.. "کس ارادے سے آئے ہو.." ساری کائنات کی قوت سمٹ آئی تھی اس مختصر سے سوال میں....... نوجوان سر سے لے کر پاؤں تک لرز گیا.. اس نے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا.. پھر پیچھے کھڑے حاضرین کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا.. اس کے بعد اس نے نظریں نیچے کرلیں اور اپنی تلوار کو دیکھتا ریا.. اسکے اندر ایک ہیجان پرپا تھا.. ایک لاوا تھا جو پھٹ پڑنے کے لیئے تیار تھا.. سب صحابہ کی نظریں اس پر جمی تھیں.. یکایک اسنے تلوار ہاتھ سے گرا دی اور کہنے لگا.. "میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکے رسول ہیں.." یہ سنتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور انکے ساتھ مل کر سب صحابہ نے اتنے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ ابو قبیس کی چٹانیں گونج اٹھیں.. جانتے ہیں یہ نوجوان کون تھا___ ؟؟؟ یہ نوجوان وہ تھا جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے مانگا تھا.. یہ مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ تھے جہنوں نے چالیس ویں نمبر پر اسلام قبول کیا تھے اور جن کے نام سے آج بھی کفر کو لرزہ چڑھ جاتا ہے__‎

 
 
 

Comments


Follow "THIS JUST IN"
  • Facebook Basic Black
  • Twitter Basic Black
  • Google+ Basic Black

Also Featured In

bottom of page