عورتوں کا مسجد میں جانا
- faiz e raza
- Aug 19, 2015
- 10 min read

بسم اللہ الرحمن الرحیم - شیطان آپ کو یہ بیان نہ پڑھنے دے گا۔ مگر آپ شیطان کی سب کوششوں کو پچھاڑتے ہوئے اسے مکمل پڑھیں۔ بعض احادیث کی رُو سے عورتوں کا باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جانا ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدِ مبارک میں خواتین بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو کر باجماعت نماز میں شریک ہوتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : کُنَّ نِسَأءُ الْمُؤمِنَاتِ، يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَاةَ الْفَجْرِ، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إلٰی بُيُوتِهِنَّ حِيْنَ يَقْضِيْنَ الصَّلَاةَ، لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ. بخاری، الصحيح، کتاب مواقيت الصلاة، باب وقت الفجر، 1 : 210، 211، رقم : 553 ترجمہ: ’’مسلمان عورتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نمازِ فجر میں شامل ہونے کی خاطر چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوا کرتی تھیں۔ جب نماز سے فارغ ہو جاتیں تو اپنے گھروں کو واپس آ جاتیں اور اندھیرے کے باعث کوئی بھی انہیں پہچان نہیں سکتا تھا۔‘‘ شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جانا چاہے تو انہیں منع نہیں کرنا چاہئے اس حوالے سے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَ کُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ. ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء فی خروج النساء إلی المسجد، 1 : 224، رقم : 567 ’’اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو لیکن ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ مگر اس کے ساتھ ہی ایسی احادیث بھی تواتر کے ساتھ موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کا اپنے گھر کے کسی کونے میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے اگرچہ بعض احادیث میں خواتین کو خاص مواقع پر نمازِ باجماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ عورت کی بہترین نماز وہی ہے جو مسجد کی بجائے گھر میں ادا کی جائے۔ عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال و صحیح الترغیب والترہیب حدیث:٣٣٨ ترجمہ:" حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا''مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نمازپڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے(اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کا) حکم دیا چنانچہ ان کے لئے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بناگیا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ رب العالمین سے جا ملیں۔ عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتھا أفضلُ من صلاتھا في حجرتھا، وصلاتھا في مِخدعھا أفضل من صلاتھا فی بیتھا۔ (أبوداوٴد شریف) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز کوٹھری میں بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔ اور کوٹھری کے اندر کی نماز، کوٹھری کی نماز سے بہتر ہے۔ وعنہ: ما صلت امرأة من صلاتہ أحب إلی اللہ من أشد مکان في بیتھا ظلمة مجمع الزوائد ترجمہ: اورابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت کی کوئی نماز، خدا کو اس نماز سے زیادہ محبوب نہیں، جو اس کی تاریک تر کوٹھری میں ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني اسرائیل۔ بخاری شریف ترجمہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکات کو دیکھتے جو آج کل کی عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا۔ غور کیا جائے تو آج کا زمانہ نہ تو سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد مبارک کے جیسا ہے اور نہ ہی احکامِ شریعت کی پابندی و پاسداری اُس عہد مبارک جیسی ہے۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے فتنہ کو اپنے عہد مبارک میں ہی جان لیا سو عورتوں کی مسجدوں میں نماز پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح آج کے دور میں شرعی عذر اور شرعی پردہ و طریقہ پر عمل کرتے ہوئے بھی کوئی عورت گھر سے نکلے تو اس طریقہ پر عمل کرنے کے ثواب سے زیادہ عورت فتنہ پربا کرے گی۔ ان تمام حدیثوں سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں رواہ أحمد، مشکواة غور کریں اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔ اور حدیث نمبر مندرجہ بالا کچھ احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ محض مباح تھا۔ پس کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اورجماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔ اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے؟ شاید یہ لوگ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں۔ تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ فتنہ وفساد سے مامون تھا۔ وغیرہ وغیرہ کچھ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر برپا ہونے والے فتنہ کے متعلق: یہ حديث صحيح ہے، اسے ترمذی نے اس لفظ کے ساتھہ ذکر کیا ہے عورت پوشیدہ رکھنے کی چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے سنن ترمذی، جلد 3، صفحہ 476، حدیث نمبر 1173 صحیح ابنِ خزیمہ، جلد 3، صفحہ 93،94 حدیث نمبر 1687-1685 صحیح ابنِ حبان، جلد 12، صفحہ 412،413، حدیث نمبر 5599-5598 طبرانی نے اسے المعجم الکبیر کی جلد 8، صفحہ 101، حدیث نمبر 10115 اور المعجم الاوسط میں جلد 8، صفحہ 101 حدیث نمبر 8096 کے تحت نقل کیا مسند بزار، البحر الزخار، جلد 5، صفحہ 428-427، حدیث نمبر 2061،2062،2065 پر اور ابنِ عدی نے کتاب الکامل، جلد 3، صفحہ 423 سوید بن ابراہم کی سوانح عمری میں نقل کیا ۔۔۔ حدیثِ مبارکہ کی وضاحت حديث كا مطلب ہے: کہ عورت جب تک پردہ میں رہے گی یہ اس کے لئے زیادہ بہتر اور حفاظت کا باعث ہے، اور وہ اپنے فتنے اور اپنے ذریعہ دوسروں کو فتنے میں ڈالنے سے دور رہے گی، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس میں راغب ہوتا ہے تو وہ اسے گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مگر اللہ جس پر رحم کردے، اس لئے کہ اسی نے شیطان کو اپنے اوپر غالب آنے کے اسباب میں سے ایک سبب دیا، اور وہ اس کا اپنے گھر سے نکلنا ہے، مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے حق میں مشروع ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے رہے، اور گھر سے کسی ضرورت کی بنا پر اپنے پورے جسم کا مکمل پردہ کرکے نکلے، اور زینت اور خوشبو استعمال نہ کرے، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ الاحزاب، آیت 33 ترجمہ: ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎؤکا ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ۔ پر عمل ہوجائے: اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان: وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ الاحزاب آیت 53 ترجمہ: ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﰷﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ ۔ ورنہ وہ فاسق و فاجر لوگوں کے جال میں پھنس جائیگی، بالخصوص بازاروں اور پارکوں اور مخلوط جگہوں میں، اور اس زمانے میں تو ایسی جگہیں بہت ہیں مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ. صحيح البخاري ومسلم میں نے اپنے بعد مرد حضرات کے لئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ ...سُوال پیدا ہوتا کہ کہ بخاری شریف کی مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ میں جن فتنوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کون سے ہیں۔ اس سلسلہ میں مَیں نے علامہ صاحب سے جمعہ کے خطاب میں سُوال کیا تو آپ نے اسکی وضاحت فرمائی۔ فرماتے ہیں کہ (1). عورت کے فتنوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ گھر سے سج سَنور کر اپنی سہیلیوں سے ملنے جائے اور راہ گزرتے اُسے مرد دیکھ کر بدنگاہی کا شکار ہوں۔ (2). دوسرا فتنہ یہ ہے کہ خود کو ایسے لباس میں زیب کر کے مرد و خواتین کی محافل میں جائے جہاں محرم اور نامحرم مرد جمع ہوں اور شور و ہنگامے کا سماں ہو اور مرد اس کے جسم پر نظر ڈال کر شہوت میں مبتلا ہو۔ (3). بظاہر نیک نظر آنے والی خواتین، جیسے کہ آج کل ٹی وی پر نعت خوان خواتین اور محلے میں عورتوں کو جمع کر کے اسپیکروں، ساونڈ سسٹم پر نعت خوانی، درس و بیانِ قرآن و حدیث دینا کہ اسکی آواز نامحرم مردوں تک پہنچے اور وہ اُن عورتوں کی آواز کے سحر میں مبتلا ہو کر بظاہر دین دار عورتوں سے دھوکہ کھا جائیں اور انہیں اہل اللہ سمجھ کر انکی پیروی کریں۔ یہ عورتوں کا شدید ترین فتنہ ہے (4). جدید دور کا بہانہ بنا کر عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا موجودہ دور میں شیطانی قوتوں نے اس بات پر بڑا زور دیا کہ مرد و زن کے اختلاط کو عام کیا جائے ،مسلمان عورتوں کو یہود و نصاریٰ کی عورتوں کے نقش قدم پر چلانے کے لیے ابلیس نے انگنت جال بچھائے ہیں۔ ان جالوں کو خوبصورت نعروںاشتہاروں اور دجل و فریب سے ایسا مزین کرکے دکھایا ہے کہ ماؤں بہنوں کو اس جال کی طرف جانے سے روکنے والے اپنے دشمن ،سماج کے دشمن ،ترقی و استحکام کے دشمن، آزادی و مساوات کے دشمن حتی کہ اسلام اور دین کے بھی دشمن نظرآتے ہیں۔ جو بھیڑئیے ان کی تاک میں گھات لگائے بیٹھے ہیں وہ ان کے نزدیک امن کے پیامبر ، حقوق کے علمبردار اورمسیحائے نسواں ٹھہرے۔ شرم و حیا، عفت وپاکدامنی گذرے وقتوں کی بات ہوئی اب تو جو متعفن دنیا سے جتنا نوچ لے وہی معزز وہی دانشور وہی لیڈر ہے۔ لہٰذا قوم کی بیٹیاں بھی اس مردہ لاش کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ اس بھگدڑ میں باپ کا اڑھایا ہوا حیا کا دوپٹہ کہاں گرا اور کتنے مردوں کے پیروں تلے کچلا گیا کچھ خبر نہیں،بس ایک ہی دوڑ ہے، مردو ںسے آگے جانے کی دوڑ۔ حالانکہ یہ نادان نہیں جانتیں کہ یہ صرف نعرہ ہے جو مردوں نے عورت ذات کا استحصال کرنے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے عورت ذات کو عزت کی زندگی سے نکال کر سڑکوں، فٹ پاتھوں اور دفتروں میں مزدور بناکر ذلیل کیا،یہ جاہلی تہذیب کے بھیڑئیے ہیں جو اپنے شکار کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مسلمان بہنوں کو سوچنا چاہئے کہ کامیابی وہ نہیں جوابلیس اور اس کے لوگ دکھارہے ہیں ،کامیابی وہ ہے جس کو اﷲ اور اس کے سچے رسول نے بیان کیا ہے۔ ان کے لیے یہود و نصاریٰ کی فاحشہ عورتیں رول ماڈل نہیں ہونی چاہئے بلکہ امہات المومنین ہی اس لائق ہیں کہ عورت ذات ان کو رول ماڈل بنائے۔ اس میں عزت ہے اور اس میں کامیابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مختلف انداز سے فتنۂ خواتین کی پیشین گوئی فرمائی۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: لوگو! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب تمہاری عورتیں سرکش ہوجائیں گی اور تمہارے جوان فاسق۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اﷲ !کیا ایسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا جی ہاں! بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ مسند ابویعلی طبرانی فی الاوسط ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: کاش مجھے اپنے بعد اپنی امت کی حالت کا علم ہوتا کہ جب ان کے مردم تکبرانہ چال چلیں گے اور ان کی عورتیں ناز و انداز سے چلیں گی اور کاش مجھے ان کا حال معلوم ہوتا کہ جب وہ دو قسم کے ہوجائیں گے ایک قسم ان لوگوں کی جو اپنی گردنیں جہاد میں بچھاتے ہوں گے( شہادت کے لیے) اور دوسرے وہ لوگ جو غیر اﷲ کے لیے عمل کرتے ہوں گے۔ تاریخ ابن عساکر واللہ تعالیٰ اعلم۔
Kommentare